کسی بھی معاشرے کے مہذب ہونے میں دو محرکات اہم کردار ادا کرتے ہیں1-احساسِ ذمہ داری2-سزا کا خوف اگر احساسِ ذمہ داری معاشرے میں غالب ہوگا تو ہر طرف چین، امن سکون اور شانتی کے ساتھ ساتھ بہت سے مثبت رجحانات اور اعلیٰ اقدار فروغ پائیں گی اور اگر سزا کا خوف ہوگا تو پھر بھی بندہ کوئی بھی جرم کرنے سے پہلے سوچے گا ضرور اور عین ممکن ہے کہ اگر قانون کی بالا دستی ہوگی تو وہ جرم سے ہاتھ کھینچ لے۔ ہم ایک پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہماری تعلیم ہمیں ایک مہذب اور باشعور قوم نہیں بناسکی ہم اپنے بچوں کو یہ تو سکھاتے ہیں کہ “صفائی نصف ایمان ہے” لیکن انکی یہ تربیت نہیں کرتے کہ بھئی اپنے گھر کا کُوڑا کچرا اٹھا کے کسی اور کے دروازے کے سامنے پھینک دینا بدتہذیبی اور غیراخلاقی فعل ہے۔ کافی دنوں سے ہمارے ساتھ بھی یہی کھیل کھیلا جارہا ہے جب بھی کچرا اٹھانے والا آتا تو وہ ہماری گلی میں جھاڑو بھی لگاتا ہے اور کچرا اٹھا کر اپنی ریڑھی میں ڈال کر لے جاتا ہے اس کام کیلیے میں اسے الگ سے معاوضہ دیتا ہوں لیکن کچھ دن ہوئے دوسرے تیسرے دن ہمارے گیٹ کے سامنے دیوار کے ساتھ کوئی کچرا پھینک جاتا تھا۔ میں بڑا پریشان جب دروازہ کھولتا دروازے کے سامنے پڑا کچرا منہ چڑا رہا ہوتا۔ محترم شفیق الرحمان اپنی کتاب “مزید حماقتیں” میں لکھتے ہیں کہ بھینس دنیا کا وہ واحد جانور ہے جس کو گزشتہ کل کی بات یاد نہیں رہتی لیکن انکے اس قول کو ہماری گلی کے لوگوں نے باطل کردیا کیونکہ انکو بھی یہ یاد نہیں رہتا کہ جہاں کل کچرا پھینکا تھا آج بھی وہیں پھینکنا ہے بس جہاں کوئی کاغذ ریپر پڑا دیکھتے ہیں وہیں پہ کچرا پھینکنا شروع کردیتے ہیں۔ میں کبھی کسی پڑوسی کا دروازہ بجاتا کبھی کسی کا کوئی مجھے صفائی کے فضائل سنادیتا اور کوئی کچرا پھینکنے والے کو غائبانہ لعن طعن کرنے لگتا کہ پتا نہیں کس بدتمیز کی حرکت ہے۔ چاروناچار کچرے کو کبھی میں بچوں سے اٹھواتا کبھی سویپر کو کالیں کرکرکے بلواتا اور اس اذیت سے چھٹکارا حاصل کرتا۔ کئی بار بچوں کی ڈیوٹی لگاتا کہ نظر رکھو کہ یہ گری ہوئی حرکت کس کی ہے برائے رغبت کچرا پھینکنے والے کو بےنقاب کرنیوالے کیلیے مبلغ پانچ سو روپے کے نقد انعام کا اعلان بھی کردیا لیکن نتیجہ وہی صفر۔ آج چھٹی تھی میں نے گیٹ کے باہر پودوں کی کانٹ چھانٹ کی باہر پانی کا چھڑکاؤ کیا اور نہا دھوکر ابھی لباس تبدیل کیا ہی تھا کہ سب سے چھوٹا بیٹا بھاگا ہوا آیا اور کہنے لگا “پاپا جی سامنے والی آنٹی اپنے دروازے کے سامنے جھاڑو لگارہی ہے”میں نے جواب دیا کہ بیٹا یہ تو بہت اچھی بات ہے بیٹے نے میرا ہاتھ تھاما اور باہر کو کھینچنے لگا کہ دیکھیں شاید وہی کچرا پھینکتی ہو آپ چلیں میرے ساتھ۔ بیٹے کی بات سن کے میں بھی چوکنا سا ہوگیا اور گیٹ میں لگے دوربین نما عدسے سے آنکھ لگا کے دیکھنے لگا آخر وہی ہوا جس بات کا خدشہ تھا ہمارے گیٹ کے سامنے والی پڑوسن نے کچرا اکٹھا کیا اور دائیں بائیں دیکھتے ہوئے ہمارے گیٹ پر نظریں جمائیں اور بڑے مہذب اور شائستہ انداز میں کچرا دیوار کے ساتھ لگادیا اسی لمحے میں باہر نکلا تووہ شرمندہ شرمندہ سی بغیر کچھ کہے اندر چلی گئی مجھے بڑا دکھ اور افسوس ہوا کہ دو تین بار میں نے انکو بلا کر بھی کہا تھا کہ کہیں آپکے بچے تویہاں کچرا نہیں پھینکتے؟ جواباً یہ مجھ سے ناراض بھی ہوئے تھے کہ میں ان پہ الزام لگا رہا ہوں لیکن یہاں تو “گل بچیاں توں ودھ گئی اے” چونکہ عورت ذات کو کچھ کہنا مکھیوں کے چھتے کو پتھر مارنے کے مترادف ہے لہٰذا صبح سے میں اس گھر کے مردوں کے پیچھے ہوں کہ وہ آئیں تو ان سے بات کروں کہ بھئی گلی محلے، اڑوس پڑوس میں رہنے کے کچھ طور طریقے ہوتے ہیں، ہم سب انسان ہیں ہمیں اہنے ساتھ ساتھ دوسروں کے دکھ تکلیف کا بھی احساس ہونا چاہیے۔ اب علی حسن صبح سے میرے پیچھے ہے کہ بابا جانی میرے پانچ سو نکالو اور میں اسکا حساب سابقہ لین دین میں بےباق کرنے کے چکر میں ہوں کہ کل اتنے پیسے لیے تھے، اتنے کا آپکا بریڈ آیا، ایک سو کے آپ نے دو دستے لیے، سکول سے واپس آکر اتنے پیسے آپ نے دوبارہ لیے تھے، چپس والا آیا تو تب اتنے لیے تھے وغیرہ وغیرہ۔کل ملا کے ایک سو پچاس روپے ابھی بھی اسکے میری طرف باقی بچتے ہیں امید ہے شام تک وہ بھی کلیئر ہوجائیں گے۔

- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل