
عبدالصبور شاکر فاروقی
دنیا کی ہر قوم اپنے ماضی سے وابستگی، حال کی کوششوں اور مستقبل کے عزائم کو واضح کرنے کے لیے ملی نغموں اور قومی ترانوں کا سہارا لیتی ہے۔ ملی نغمے نہ صرف اپنے جوانوں میں جذبات ابھارنے کا کام دیتے ہیں بلکہ دشمن اقوام کو دور رہنے اور کسی غلطی میں مبتلا رہنے سے بچنے کا الارم بھی ثابت ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سن 1965 کی پاک بھارت جنگ میں پاکستانی فوج کے ساتھ ساتھ ملی نغموں اور ترانوں نے بھی خوب کردار ادا کیا تھا۔ اکثر فوجیوں سے سنا گیا کہ ہم میدان جنگ میں بیٹھے جب ریڈیو پر ملی ترانہ سنتے تو ہمارے اندر جوش و ولولہ بڑھ جاتا۔ہمارے حوصلے بلند ہو جاتے۔ یوں دشمن کے چھکے چھڑانا ہمارے لیے آسان ہو جاتا۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ میدان بدر میں کفار مکہ بھی اپنے ساتھ ایسی گلوکار خواتین کو لے کر آئے تھے جو اپنی فوج میں ولولہ اور جوش پیدا کرنے کا کام کرتی تھیں۔ مسلمان بھی جنگی ترانے پڑھنے میں پیچھے نہیں تھے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جنہوں نے کبھی اشعار نہیں کہے تھے، میدان جنگ میں ان سے بھی اشعار پڑھنا ثابت ہے مثلاً
انا النبی لا کذب
انا ابن عبدالمطلب
یعنی میں جھوٹا نبی نہیں ہوں، میں عبدالمطلب کی اولاد ہوں۔
اسی طرح غزوہ احزاب میں صحابہ کرام کا یہ ملی ترانہ بہت مشہور ہوا
نحن الذین بایعوا محمدا
علی الجھاد مابقینا ابدا
عربی ادب میں تو مبارزة پر دیوانوں کے دیوان بھرے ہوئے ہیں۔ غزوہ خیبر میں شیر خدا سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے مرحب کو قتل کرنے سے پہلے اشعار پڑھے جن کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ
” میرا نام میری ماں نے ” حیدر” یعنی شیر رکھا ہے۔ میں پورا تول کر وار کرتا ہوں اور دشمن کا سر اڑا دیتا ہوں۔”
غرض ملی نغمہ آج کی ایجاد نہیں ہے۔ وطن عزیز پاکستان بھی معرض وجود میں آیا تو شعراء کرام نے اپنے اپنے انداز میں وطن کی محبت میں ترانے لکھے۔ پھر ماہرینِ فن نے ان کی دھنیں ترتیب دیں اور سریلی آواز والوں نے انہیں گایا۔ ان میں سے بعض ترانے تو لازوال شہرت پا کر امر ہو گئے ہیں۔ جن میں سرفہرست جنید جمشید مرحوم کا گایا ” دل دل پاکستان” تو شہرت کی ان بلندیوں تک پہنچا ہے جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ پورے پاکستان کے بیس کروڑ عوام اور تین نسلوں کا کوئی شخص ہی ایسا ہوگا جس نے اسے نہ سنا ہوگا۔ وکی پیڈیا کے مطابق یہ ترانہ 14 اگست 1987 کو ریلیز ہوا اور دنوں میں مشہوری کی بلندیوں پر جا پہنچا۔ حتی کہ اسے دوسرا قومی ترانہ ہونے کا اعزاز حاصل ہو گیا۔ سن 2003 میں بی بی سی نے دنیا بھر کے سات ہزار گیتوں میں ٹاپ ٹین چننے کا مقابلہ کروایا تو دل دل پاکستان ان میں سے تیسرے نمبر پر تھا۔ اس نغمے کی خاصیت یہ ہے کہ اسے پاپ میوزک اور مغربی دھنوں کی بنیاد پر پڑھا گیا۔ اس سے پہلے تمام ملی نغمے مشرقی دھنوں اور کلاسیکی موسیقی کے اصول و قواعد کے مطابق ترتیب دیے جاتے رہے ہیں۔ پھر اہم بات یہ کہ اس کے الفاظ انتہائی سادہ رکھے گئے کہ ہر پڑھے لکھے اور ان پڑھ کی سمجھ میں آسانی سے آ جاتے ہیں۔ چار منٹ اٹھائیس سیکنڈ کا یہ ملی نغمہ آج بھی لوگوں میں شوق سے پڑھا، سنا اور دیکھا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں.. بھی بہت مشہور ہوا۔ جس کی شاعری جناب کلیم عثمانی کی اور گائیکی نیرہ نور کی ہے۔ ہر سطح پر اس ترانے کو بھی بہت مقبولیت ملی۔ میڈم نور جہاں نے تو بہت سے ملی نغموں میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔ بلکہ ایک ملی نغمے کے تو بول ہی یہ ہیں ” اے وطن کے سجیلے جوانو! میرے نغمے تمہارے لیے ہیں”۔ اسی طرح ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن، اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے اور ان جیسے بیسیوں اردو پنجابی لازوال نغمے جو اب بھی اسی جذبے و شوق سے سنے جاتے ہیں جیسے ابتداء میں سنے گئے۔
اے وطن میرے وطن ڈاکٹر راشد علی کے لکھے اس نغمے کو سُروں کے بادشاہ استاد امانت علی خان نے گا کر امر کر دیا۔ ڈاکٹر الیاس عاجز صاحب نے ” اے وطن تو سلامت رہے” لکھا۔ ان کے علاوہ چاند میری زمیں پھول میرا وطن، سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے، یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسبان اس کے، نئے دنوں کی مسافتوں کو اجالنا ہے بہت مشہور ہیں جنہیں ملک کے نام ور سنگیت کاروں نے گایا اور عوام کے دلوں کو گرمایا ہے۔ بعض ترانے شہرت کا وہ درجہ حاصل نہ کر سکے تو تاریخ کے اوراق میں گم ہو کر رہ گئے۔ مثلاً زیڈ اے بخاری کا لکھا ترانہ ”انسانیت کا نشان، علم و عمل ایمان” وہ ترانہ ہے جسے قومی ترانے کے طور پر منظور کرنے کی درخواست بھی کی گئی۔ ایک بہترین ملی نغمہ ہے۔ اس کے علاوہ حکیم احمد شجاع کا لکھا ہوا ”زندہ باد پاکستان” بھی قومی ترانے کی جگہ لینے کمیٹی کے سامنے پیش ہو چکا ہے۔
ابتداء مذہبی طبقہ ملی نغموں سے دور بھاگتا تھا جس کی بنیادی وجہ ان میں ساز اور موسیقی کا ہونا بتائی جاتی تھی لیکن اب بلاموسیقی کے خوب صورت اور دل کش ترانے مختلف مدارس اور مذہبی طبقے کی جانب سے پیش کیے جا رہے ہیں۔ ان مدارس میں جامعۃ الرشید کراچی اور جامعہ بنوریہ کراچی سرفہرست ہیں۔ ان اداروں نے دھن، ساز، الفاظ اور ویڈیو کوالٹی کے معیار پر پورا اترتے ہوئے ایسے ترانے اور ملی نغمے ریلیز کیے ہیں جنہیں سننا کانوں کو بھلا لگتا ہے۔ ہر ایک شخص کا وطن سے محبت کا اپنا اپنا انداز ہے اور موسیقاروں، گلوکاروں اور شعراء کے اظہار کا طریقہ ملی نغموں کے معرض وجود میں آنے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔