گو ولادت نبوی صلی علیہ وآلہ وسلم میں تواریخ کا اختلاف ہے مگر ہمارے ہاں سرکاری و عوامی سطح پر 12 ربیع الاول کو ولادتِ مصطفیٰ کے طور پر منایا جاتا ہے ۔
جھنڈے ، جلوس ، نعرے لنگر وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ آج جلوس میں کافی لوگوں سے جلوس میں آمد کی وجہ پوچھیں تو تقریباً ایک سا ہی جواب ملا
خضور کی آمد کی خوشی ہے اسلئے پھر میں نے اگلا سوال کیا کہ خضور کی وفات کا دن کیا ہے ۔۔؟
مسکرا کر کہنے لگے وہابی ہو کیا ۔۔؟
خیر تجربہ بتاتا ہے کہ انسان خود وہابی ہو پر پڑوس وہابیوں کا نہ ملے۔۔
نہ لنگر نہ نیاز نہ کونڈے
ایک نعرہ بار بار لگایا جا رہا تھا کہ ابلیس کہ سوا سب خوشیاں منا رہے ہیں ۔
صاحب اسٹیج نے کہا میں نعرہ رسالت لگاؤں گا کسی عاشق کا ہاتھ نیچے نہ ہو
میں نے دونوں ہاتھ بلند کر کے جواب دیا ۔
آخر منکر کا فتویٰ تو تھوڑی لگاوا سکتا تھا۔
خیر یہ بحثیں فضول ہیں ۔ روایات کی جنگ ہے۔ ہمارے مطابق روایات پنسار کی دکان ہے جہاں سے ہر مسلک کو اپنے مقصد کی پھکی مل جاتی ہے ۔
گھر آ کر کتاب حکمت کھولی جس کہ بارے میں رب پاک نے فرمایا کہ اگر آپس میں اختلافات پیدا ہوں تو اس فرقان حمید پہ فیصلہ کرو۔۔۔
میلاد منانے اور نہ منانے پہ اختلاف کچھ خاص طبقے کی روزی روٹی کا جگاڑ ہے اسلئے اسے نہیں چھیڑتے ۔۔ آئیے دیکھتیں ہیں قرآن کریم میں خضور کی آمد کا مقصد کیا بیان ہوا ہے ۔۔؟
اللہ تعالی نے وجہ آمد مصطفیٰ ( بعثت ) کو یوں بیان فرمایا:
ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِّٖنَ رَسُوْلاً مِنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ ٰایٰتٖہ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وِاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مبین۔( الجمعۃ :۲)
ترجمہ
’’ وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک ( با عظمت ) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور اُن ( کے ظاہر و باطن ) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ، بیشک وہ لوگ اِن ( کے تشریف لانے ) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ” ( طاہر القادری)
مولانا عبد الماجد دریابادی ؒمقاصدِبعثت کو مختصر اور جامع الفاظ میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں
:ذرا سا غور کرنے پرنظر آجائے گا کہ رسول اعظمﷺ کے جملہ فرائض کمالِ ایجاز کے ساتھ چندفقروں میں آگئے ہیں ۔
’’یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ‘‘
رسول کا پہلا کام اپنی امت کے سامنے تلاوتِ آیات ہوتا ہے، یعنی اللہ کا کلام پہنچانا،گویا رسول کی پہلی حیثیت مبلغِ اعظم کی ہوتی ہے۔
’’یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ‘‘
رسول کاکام محض تبلیغ وپیام رسانی پر ختم نہیں ہوجاتا،اس کاکام کتاب ِ الٰہی کی تبلیغ کے بعد اس کی تعلیم کا بھی ہے،اس تعلیم کے اندر کتاب کی شرح، ترجمانی، تعمیم میں تخصیص، تخصیص میں تعمیم سب کچھ آگئی ۔
اور یہیں سے ان کج فہموں کی بھی تردید ہوگئی جو رسول کا منصب ( معاذ اللہ ) صرف ڈاکیہ یا قاصد کی طرح سمجھتے ہیں ، گویا رسول کی دوسری حیثیت معلمِ اعظم کی ہوئی۔
’’وَالْحِکْمَۃَ‘‘
پھر رسول تعلیم محض کتا ب ہی کی نہ دیں گے؛ بلکہ حکمت و دانائی کی تلقین بھی امت کو کریں گے،احکام ومسائل، دین کے قاعدے اور آداب، عوام وخواص سب کو سکھائیں گے اور خواص کی رہنمائی اسرارو رموزمیں بھی کریں گے،گویا رسول کی تیسری حیثیت مرشد ِ اعظم کی ہوئی۔
’’یُزَکِّیْھِمْ ‘‘
تزکیہ سے مراد دلوں کی صفائی ہے، رسول کا کام محض الفاظ اور احکام ِ ظاہری کی تشریح تک محدود نہیں رہے گا؛ بلکہ وہ اخلاق کی پاکیزگی اور نیتوں کے اخلاص کے بھی فرائض انجام دیں گے،گویا رسول کی یہ چوتھی حیثیت مصلحِ اعظم کی ہوئی۔(تفسیر ِ ماجد ی:۱/۲۵۱)
میلاد کا جشن ایک دن ہوتا ہے
تو کیوں نہ ہم بعثت رسول کا مقصد سمجھ کر اپنی اور دوسروں کی زندگیوں میں چراغاں کریں ۔۔
دربار رسالت میں چند اشعار سے حاضری لگا کر تحریر ختم کرنا چاہوں گا ۔
یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من وجہک المنیر لقد نور القمر
لا یمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر