
شازیہ کاسی ایڈووکیٹ
طلوع اسلام کے بعد زندہ بیٹیوں کو درگور کرنے کی بجائے بیٹیوں کو رحمت کر دیا جو میرے مالک کی صفت ہے۔ مگر دو نظریہ کی بنیاد پر بننے والے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سب سے زیادہ تذلیل آج عورت کی ہوتی ہے۔ اس کو تعلیم سے دور رکھا جا تا ہے۔ اس کے اٹھنے بیٹھنے اور پہننے اوڑھنے سے اس کے کردار کو جانچا جاتا ہے۔ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی اپنی بیٹی کی شادی کے لئے اس کی رضامندی لی تھی۔
آج کے معاشرے میں عورت محفوظ نہیں ہے۔ کبھی اس کو جلایا جاتا ہے جہیز نہ لانے پر۔ کبھی اس کو سولی چڑھنا پڑھتا ہے دشمنی کے عیوض مردوں کی قبیلوں کی عزت بچانے کے لئے۔ اگر گھر سے باہر جائے تو پبلک پراپرٹی بن جاتی ہے اور جو بھی چاہیے اس کو کچھ بھی کہہ سکتا ہے ۔ اس کے ساتھ کر سکتا ہے۔ گھر سے باہر نکلی ہی کیوں؟۔ اس نے ایسے کپڑے پہنے ہی کیوں؟ مگر ہم نے دیکھا کہ 4 سال سے لے کر اسی سال کی عورت کی عصمت دری کی گئی۔ ہم نے دیکھا بچوں کے سامنے ما ں کو بے عزت کیا اور باپ کو مار دیا۔ شوہر نے بیوی کو بچیوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کر کے کوکر میں پکا دیا۔
آج ایک وڈیو کلپ دیکھا جس میں شادی سے انکار پر ایک لڑکی کو اٹھایا گیا اس کو مارا گیا اس کی ایسی تذلیل کی گئی کہ انسانیت بھی شرمندہ ہو گئ۔ اس سے جوتے چٹوائے گئے۔ اس کے بال کاٹ دیئے گئے۔ اور بے غیرتوں نے وڈیو بنائ اور سوشل میڈیا پر وئرل کی گئ۔ مجرم گرفتار ہو چکے ہیں ۔ مگر نتیجہ کا انتظار کیجئے۔
نبی کا فرمان ہے
اس سے زیادہ رذیل کوئی شخص نہیں جو عورت کی عزت نہیں کرتا۔
ایڈوکیٹ شازیہ کاسی
سنیر وائس پریزیڈنٹ ہیومین رائٹس کونسل پاکستان، وائس پریزیڈنٹ سندھ ہائیکورٹ بار