82

نفس پرستی میں مدہوش سیاستدان/تحریر/نجیب اللہ مہترزئی

حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ خلیفہ بننے سے پہلے اعلی مذاق ،نستعلیقی ونفاست پسندی کیلئے ایک ضرب المثل کی حیثیت رکھتے تھے ان کا فیشن نوجوانوں میں نہ صرف قابل تقلید بلکہ منتہائے کمال سمجھا جاتا تھا ان کی چال ڈھال کی نقل کی جاتی تھی اور المشیۃ العمریه کے نام سے اس زمانے کی سوسائٹی میں زبان زد خلائق تھی بیش قیمت سے بیش قیمت کپڑا بازار سے خرید کر آتا ،تو ان کی نظر میں نہ جچتا ،لیکن جب خلافت کا بار ان کے کاندھوں پر پڑا تو ان کی زندگی یکسر تبدیل ہوگئی انہوں نے اپنے اور اپنے قریب ترین اعزہ کی جاگیریں بیت المال کو واپس کردیں ۔ایک مرتبہ سستے سے سستا کپڑا ان کی پوشاک کیلئے آیا تو یہ کہہ کر انہوں نے واپس کردیا کہ یہ قیمتی ہے ان کے خادم کی آنکھوں میں پرانا زمانہ یاد کرکے آنسو آگئے کہ بازار کے قیمتی کپڑوں کو انہوں نے یہ کہہ کر واپس کردیا تھا کہ بہت معمولی ہے ۔
کھانے پینے اور گھر کی چیزوں کا معیار انھوں نے اتنا گرادیا کہ بوریا نشین زاہد بھی اس سے نیچے شاید نہ اتر سکے،احتیاط کا یہ عالم تھا کہ سرکاری شمع جل رہی ہے اور وہ حکومت کا کام کررہے ہیں کہ ایک دوست باہر سے آتے ہیں ،وہ ان سے ان کے علاقہ کے مسلمانوں کے حالات دریافت کرتے ہیں ،جوں ہی وہ ان کے بچوں کی خیریت اور گھر والوں کی عافیت پوچھنے لگتے ہیں تو وہ پھونک مار کر شمع گل کردیتے ہیں اور ذاتی شمع منگواتے ہیں کہ سرکاری شمع اور تیل اس لئے نہیں ہے کہ ذاتی سوالات اور خانگی حالات میں وہ صرف ہوں ۔یہ بھی ایک خلیفہ تھےجو ملت کے مفاد کو اپنے مفاد پر، برادریوں کے مفاد پر مقدم رکھتے تھے ۔
اب میں بات کرتاہوں ہمارے حکمرانوں ،وزیروں اور سیاستدانوں کی جو نفس پرستی میں مدہوش ہیں اپنے مفادات ،برادریوں کے مفادات، جماعت کے مفادات ملت کے مفادات پر مقدم رکھتے ہیں جب ووٹ لینے کیلئے عوام کے پاس جاتے ہیں تو اپنی نیک نامی کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں اپنے آپ کو باکردار ،بااصول،دیانتداراور جرآت مند کہتے ہیں جو اپنے آپ کو نڈر ،بے داغ ماضی کے مالک اور جمہوریت پسند کہتے ہیں، ملک میں اسلام نافذ کرنے ،عوام کو انصاف ،روٹی کپڑا مکان ۔۔۔۔۔دینے کے دعوے کرتے ہیں حالانکہ ان لوگوں میں ایسی خوبیاں نہیں ہوتیں یا تووہ اپنی زور خطابت سے اور کبھی جھوٹے وعدوں سے عوام کے دل موہ لیتے ہیں ۔
ہماری عوام سادگی کیساتھ نسل درنسل ایسے لوگوں کو اقتدار میں لاتی ہے جن کا کردار قابل نفرت ہوتا ہے ہمارے ایم این اے ،ایم پی اے حضرات تو بظاہر مدتوں سے عوام کے غم میں گھلتے چلے جارہے ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس قدر غم کھانے کے باوجود ان کے جسم اور بنک بیلنس موٹے ہی ہوتے چلے جارہے ہیں جب پاکستانی بنکوں میں یہ دولت کے انبار نہیں سما سکتے تو بیرونی ملکوں سوئٹزرلینڈ ،امریکہ ،برطانیہ لندن وغیرہ کے بنکوں میں منتقل کر دیتے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ ان ملکوں میں بیٹھ کر انہیں پاکستان دشمن ممالک سے بطور اجرت اور زیادہ دولت سمیٹنے کا سنہری موقع ہاتھ آجاتا ہے یہ لوگ ان ممالک کے مہنگے ترین علاقوں میں انتہائی شان وشوکت سے رہتے ہیں اور کوئی پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ یہ دولت کہاں سے آئی ۔
شیخ سعدی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ اگر بادشاہ آدھے انڈے کا ظلم روا رکھے تو ان کے افسران رعیت کے سارے مرغ بھون کر کھا جائیں گے ۔
اگر صدر ،وزیر اعظم ،ایم این اے ،ایم پی اے خود جرائم میں ملوث ہو،بیت المال کی چیزوں کو اپنے ذاتی کاموں کیلئے استعمال کرتاہو، غریب ،مفلس ،لاچار عوام کےنام پر حکومتی فنڈز نکال کر خود جائیدادیں بناتا ہو، اور اقربا پروری کی بنیاد پر تقسیم کرتا ہو، خود جوان انسانی جسموں کو گرم کرکے مزے لیتے ہوں، عیاشیاں کرتے ہوں وہاں اگر ایک چپراسی صرف اپنی جیب گرم کرے توہم اسے مورد الزام کیسے ٹھہرا سکتے ہیں؟
افسوس ہمارے بعض سیاستدانوں کے کرتوت ایسے ہیں ان کا کردار اس قدر ،ذلیل ،پست ،گھٹیا ،مجرمانہ،ناپاک اور انسانیت سے اتنے گرےہوئےہیں کہ مجھے لکھتے ہوئے شرم آرہی ہے ۔
مجھے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ناخداؤں کے ان کرتوتوں کا جب علم ہوا تو میرے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی آنکھوں میں آنسوآگئے اور اپنے آپ کو مسلمان اور پاکستانی کہتے ہوئے شرم محسوس ہونے لگی ۔
کیا یہی ہیں وہ ملت اسلامیہ کے رہنما جنہیں ہم اپنے ووٹ سے آگے لائے ہیں یا آگے لانے کے متمنی ہیں۔
لیکن یہ سب کچھ اسلئے لکھا کہ بھولی بھالی قوم سے پوچھ سکوں کہ کیا یہ لوگ اس قابل تھے کہ ہم انہیں اپنا رہبر ،لیڈر اور ناخدا بنائیں ۔
انہوں نے اپنی آخرت بھی ڈبوئی اور قوم کو بھی اس راستے پر گامزن کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا چھوڑی ۔
ڈاکٹر علامہ اقبال نے خوب کہا ہے ۔
می کند بند غلامان سخت تر
حریت می خواند او را بی بصر
آج کل کا سیا ستدان محکوموں کی زنجیروں کو زیادہ مظبوط بناتا ہے ۔ کم نظر یہ سمجھتا ہے کہ وہ غلاموں کی آزادی کے لیے کام کر رہا ہے۔
حریت خواہی بہ پیچاکش میفت
تشنہ میر و بر نم تاکش میفت
اگر تو آزادی چاہتا ہے تو ایسے سیاستدان کے فریب میں نہ آ، پیاسا مر جا لیکن اس کے انگور کے رس کا طالب نہ ہو۔
الحذر از گرمی گفتار او
الحذر از حرف پہلو دار او
ایسے سیاستدان کی گرمئ گفتار اور حرف پہلودار (ذو معنی) سے اللہ تعالے بچائیں۔
چشم ہا از سرمہ اش بی نور تر
بندۂ مجبور ازو مجبور تر
اس کا سرمہ آنکھوں کو اور زیادہ بے نور کر دیتا ہے اور اس کی سیاست مجبور انسان کو اور مجبور بنا دیتی ہے۔
از شراب ساتگینش الحذر
از قمار بدنشینش الحذر
اس کے جام کی شراب اور اس کی بدنیتی پر مبنی کھیل سے اللہ تعالے بچائیں۔
از خودی غافل نگردد مرد حر
حفظ خود کن حب افیونش مخور
مرد حر اپنی خودی سے غافل نہیں ہوتا۔ تو اپنی حفاظت کے لیے ایسے سیاستدان کی افیون کی گولی نہ کھا۔
پیش فرعونان بگو حرف کلیم
تا کند ضرب تو دریا را دونیم
فرعونوں کے سامنے حضرت موسی (علیہ) کی بیباکانہ بات کر تاکہ تیری ضرب سمندر کو دو ٹکڑے کر دے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں