139

اسلامک رائٹرز موومنٹ پاکستان کے زیر اہتمام دس روزہ فری اسلامک میڈیا ورکشاپ کا اہتمام/رپورٹ/سارہ عمر، الریاض (سعودی عرب)

اس ورکشاپ کا انعقاد علامہ زاہد الراشدی، سر ندیم نظر، مولانا عبد القدوس محمدی اور حفیظ چودھری کی قیادت میں ہوا تھا

کسی بھی لکھاری کی تحریر میں بہتری کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تربیت کی جائے۔ اسے بہترین ذخیرہ الفاظ سیکھنے کے ساتھ ساتھ بہترین اساتذہ کی شاگردی بھی حاصل ہو۔اچھے استاد کا ساتھ ہی آپ کو اس قابل بناتا ہے کہ آپ کسی بھی میدان میں اپنی صلاحیتیں بھرپور طریقے سے بروئے کار لا سکیں۔اسلامک رائیٹرز مومونٹ پاکستان کی جانب سے دس روزہ فری ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں اپنی فیلڈ کی ممتاز و مایہ ناز شخصیات نے شرکت کی۔یہ ورکشاپ نئے لکھاریوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے اور ان کی اصلاح کے لیے منعقد کی گئی جس سے شائقینِ محفل بھرپور فیض یاب ہوئے۔
یہ ورکشاپ مفکر اسلام مولانا زاہد الراشدی صاحب کے زیر سرپرستی اور محترم ندیم نظر صاحب کے زیر نگرانی منعقد کی گئی۔جس کی قیادت بہترین انداز میں بانی و چئیر مین اسلامک رائیٹرز مومونٹ محترم حفیظ چوہدری صاحب نے سنبھالی۔ان کے علاوہ دیگر
نگران کورس میں اسامہ قاسم اور آفاق نقشبندی صاحب شامل ہیں۔تنظیم کے مرکزی قائدین میں مفتی فیصل مجید اعوان، مولانا امداد اللہ طیب، مولانا محمد عظیم فاروقی،محمد اسامہ قاسم، حافظ بلال بشیر، شاکر فاروقی،محمد عثمان عامر صاحب شامل ہیں۔
اس ورکشاپ کے مہمانانِ گرامی میں سر سلمان صدیقی صاحب،محترم اعجاز اللہ خان صاحب،عبد الروف محمدی صاحب،محترم ایثار رانا صاحب،محترمہ انیلہ افضال ایڈووکیٹ صاحبہ،محترمہ حمیرا حیدر صاحبہ،سر میر اسامہ صاحب،سید بدر سعید صاحب،مولانا عمر فاروق راشد صاحب،محترم نجم ولی خان صاحب اور محترم وقاص سعید صاحب شامل ہیں جنہوں نے اپنے تجربات کی روشنی میں مختلف موضوعات کو شرکاء کے سامنے پیش کیا۔
اس ورکشاپ میں مختلف موضوعات کو زیر بحث لایا گیا جس میں لکھاری کی فکری تشکیل و ارتقا، اداریہ نویسی، انٹرویو نگاری، خبر نگاری، مزاح نگاری کی ضرورت و اہمیت، آرٹیفیشل انٹیلی جنس ، سوشل میڈیا کا مثبت استعمال، ڈیجیٹل اسکلز اور ارننگ کے علاوہ اسلامی صحافت کی ضرورت و اہمیت شامل ہیں۔
ہر لیکچرار نے ایسی موثر اور جامع گفتگو کی جو کہ ان کی برسوں کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ روزانہ کی بنیاد پر ایک گھنٹے کے لیکچر میں ہر طرح سے سامعین کو متعلقہ موضوع کے متعلق تفصیلات سے آگاہ کیا گیا اور ان کے سوالات کے تسلی بخش جوابات سے نوازا گیا۔ اسلامک رائٹرز موومنٹ پاکستان کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ ہر لیکچر کا آغاز مقررہ وقت پہ ہوا اور مقررہ وقت کے اندر ہی اختتام پذیر ہوا۔
پہلا سیشن محترمہ حمیرا حیدر صاحبہ کا تھا جس میں انہوں نے بتایا کہ ”سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کیوں ضروری ہے؟” سوشل میڈیا دور جدید کی اہم ضرورت ہے، جس کا استعمال ناگزیر ہے۔ سو اس کا مثبت استعمال ہی ہمیں اس کے فوائد سے روشناس کروا سکتا ہے۔ اتالیق ٹرینگز اسلام آباد سے وابستہ مولانا وقاص سعید صاحب نے لکھاری کی فکری تشکیل اور ارتقا کے متعلق بیان کیا۔ ایک لکھاری فکر و شعور کی مختلف منازل سے گزر کر ہی عملی طور پر ایک کامیاب لکھاری بن سکتا ہے۔ فکری بالیدگی کے لیے مطالعے کی اہمیت ناگزیر ہے۔مولانا صاحب نے تدبر،محاسبہ اور مراقبے کو جامع الفاظ میں بیان کیا۔ روزنامہ نئی بات کے ایڈیٹر محترم نجم ولی خان صاحب کا سیشن بھی نہایت عمدہ رہا، جس میں اداریہ نویسی پہ سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ نجم ولی صاحب سینئر صحافی ہیں۔ روزنامہ خبریں اور روزنامہ ایکسپریس کے چیف رپورٹر رہ چکے ہیں۔ یہ نیوز نائٹ کے اینکر پرسن بھی ہیں اور اپنے دبنگ اسٹائل کی وجہ سے ناظرین میں خاصے مقبول ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اداریہ اخبار میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے بغیر اخبار ادھورا ہے۔ انھوں نے اداریہ نویسی، اداریہ سازی اور اداریہ نوازی کے متعلق بہترین رہنمائی فراہم کی۔
محفل اس وقت کشتِ زعفران بن گئی جب ایڈیٹر ندیم نظر صاحب نے اداریے کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کیا کہ کسی زمانے میں اداریہ اخبار کا دل ہوا کرتا تھا مگر اب اس کو ہارٹ اٹیک ہو گیا ہے۔ محترم ندیم نظر صاحب بھی دیگر شائقین کے ہمراہ ہر ورکشاپ کا حصہ رہے اور تمام شائقین کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔
انٹرویو نگاری کے سیشن میں سید بدر سعید(ایڈیٹر فورم نئی بات)نے اتنے عمدہ طریقے سے معتبر شخصیات سے انٹرویو لینے کی ٹپس بتائیں جو کہ عموماً کہیں ذکر نہیں کی جاتیں۔انٹرویو کی باریک بینوں کو بہت احسن انداز میں بیان کیا گیا۔سر سلمان صدیقی کے لیکچر سے ڈیجیٹل اسکلز اور ارننگ کے متعلق سیکھنے کو ملا جبکہ گرافک ڈیزائنر اعجاز اللہ خان صاحب نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور اے آئی کے ٹولز کے متعلق بہت عمدہ معلومات مہیا کیں کہ کس طرح لکھاری جدید ٹولز کو استعمال کرتے ہوئے اپنے لکھے کو بہتر سے بہترین کر سکتے ہیں۔ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے کام کو نکھارنے سے اس میں مزید بہتری آ سکتی ہے۔سر میر اسامہ صاحب نے فیس بک کے یوزر نیم اور ٹیگنگ کے متعلق مفید و کارآمد معلومات فراہم کیں۔
کالم نگار و اینکر پرسن عبدالروف محمدی صاحب نے خبر کے متعلق اتنے لطیف پیرائے میں وضاحت کی کہ دل اش اش کر اٹھا۔ خبر کیا ہوتی ہے اور کون سی خبر اہم ہے اور کون سی غیر اہم؟ اخبار میں شہ سرخی کس طرح لکھی جاتی ہے؟ اور اخبار میں کس طرح سے خبر لکھی جاتی ہے؟ اس کی بہت اچھی وضاحت کی گئی۔
ایڈیٹر روزنامہ پاکستان ایثار رانا صاحب کا سیشن نہایت ہی عمدہ رہا۔ انھوں نے مختصر وقت میں اپنے تجربے کا نچوڑ بتاتے ہوئے نئے لکھاریوں کو بے حد اہم نکات کے متعلق آگاہ کیا کہ وہ کیسے اپنی صلاحیتوں کو نکھار کر اخبار میں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔محترم عمر فاروق راشد صاحب نے اسلامی صحافت کی ضرورت و اہمیت کے حوالے سے بھی لیکچر دیا جس میں انھوں نے لکھاریوں پہ زور دیا کہ صحافت کے میدان میں اپنی اقدار اور اسلامی روایات کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے بلکہ آپ کی لکھی ہر تحریر میں اسلامی تعلیمات کا عنصر نمایاں ہو۔
محترمہ انیلہ افضال ایڈووکیٹ صاحبہ نے طنز و مزاح کا فرق بیان کرتے ہوئے کہا کہ مزاح ایک ایسا رجحان ہے جس میں ہنسی کو لطیف انداز میں لوگوں کے سامنے بیان کیا جاتا ہے۔ انسان وہ واحد تخلیق ہے جو اپنے اوپر ہنسنے کا ہنر جانتا ہے۔ مزاح نگاری کی ضرورت ہر دور میں پیش آئی ہے اور ہنسنے ہنسانے کے لیے مختلف طریقے ایجاد کیے گئے۔ طنز میں طعنے اور تمسخر کا عنصر ہوتا ہے اور اس میں گہری چوٹ کی جاتی ہے۔مزاح معاشرے کی اصلاح کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس میں لطافت نمایاں ہوتی ہے۔
اختتامی سیشن شاکر فاروقی صاحب کا تھا جس میں اسلامک رائیٹرز مومونٹ پاکستان کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے آئندہ کا لائحہ عمل تشکیل دیا گیا۔حاضرین محفل نے اسلامک رائٹرز موومنٹ پاکستان کی خدمات کو سراہتے ہوئے اتنی کامیاب ورکشاپ منعقد کروانے پہ مبارک باد پیش کی اور تحریک کی قیادت کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے تمام معتبر شخصیات کو ایک پلیٹ فارم پر یک جا کر کے لکھاریوں کو سیکھنے کا موقع فراہم کیا۔ آخری سیشن میں مولانا زاہد الراشدی صاحب نے شرکت فرما کر ورکشاپ کو رونق بخشی اور نہایت جامع و سیرحاصل گفتگو کرتے ہوئے خبر اور اس کی تحقیق پہ روشنی ڈالی کہ صحافت اور قلم کو قرآن و سنت کے مطابق استعمال کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ قلم ایک ہتھیار ہے جس کے ذریعے ہم آج کل کے سوشل میڈیا کے دور میں جنگ کر سکتے ہیں ۔اپنی آواز قلم کے ذریعے دنیا کے ہر کونے میں پہنچا سکتے ہیں۔
میں اسلامک رائیٹرز مومونٹ پاکستان کو اتنی عمدہ ورکشاپ کروانے پہ بہت مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ میں امید کرتی ہوں کہ آگے بھی لکھاریوں کو اسی طرح سیکھنے کے مزید مواقع ملتے رہیں گے اور ان کی اصلاح کے لیے اقدامات جاری و ساری رہیں گے۔


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں