پوری دنیا میں ہر سال معذور افراد کا عالمی دن 3 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ معذور افراد سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جو کسی بھی قسم کے جسمانی عضو یا دماغی بیماری سے متاثر ہوں۔ یعنی نقل و حرکت کی دشواری، سماعت و بصارت کی خرابی، کچھ خاص سیکھنے کی عدمِ صلاحیت اور دماغی صحت کے مسائل معذوری میں شامل ہیں۔ یہ ایسے مسائل ہیں جو ایک انسان کے لیے معاشرے میں مساوی بنیادوں پر مکمل و مؤثر کردار ادا کرنے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ ہر سال اس دن کے اہتمام سے پتا چلتا ہے کہ معذور افراد کے حقوق کا تحفظ کتنا ضروری ہے۔
دنیا میں تقریباً ایک ارب سے زیادہ لوگ جسمانی معذوری کا شکار ہیں۔ ان میں زیادہ تر معذور کام کرنے کی عمر کو پہنچے ہوئے ہیں اور ان کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا میں اس وقت تقریباً 6ملین افراد معذور ہیں، یعنی ہر دس میں سے ایک فرد معذور ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں تقریباً 80 سے 90 فیصد لوگوں کو آگے بڑھنے کے مواقع میسر نہیں آتے اور ترقی یافتہ ممالک میں اس کا تناسب 50 سے 80 فیصد ہے۔ قومی شناخت کے ادارے نادرا کے مطابق پاکستان میں معذور افراد کی تعداد 3878057 ہے۔ جن میں 27081 افراد کم عمر ہیں۔
معذور افراد کی داد رسی کے لیے 1992ء کو اقوام متحدہ میں ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے معذور افراد کے عالمی دن کا آغاز ہوا۔
اس دن کو عالمی سطح پر منانے کے کچھ اہم مقاصد ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
1)معذور افراد کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے احساسِ کمتری سے بچا کر مفید و کارآمد شہری بنانا
2)سماجی، سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی پہلوؤں سے معذور افراد کے مسائل کی آگاہی کو فروغ دینا
3) تمام تر معاشرتی سطحوں پر ان کے حقوق کو تحفظ دلوانا
4) اس بات کی جد وجہد کرنا کہ معذور افراد اپنی زندگی کے ہر شعبے میں تمام رکاوٹوں سے دور رہتے ہوئے آزادانہ طریقے سے مؤثر طور پر معاشرے کا حصہ بن سکیں
5) معاشرے میں ایسے چیلنجز کے بارے میں بیداری پیدا کرنا جن کا معذور افراد کو سامنا کرنا پڑتا ہے تاکہ معاشرے تک معذور افراد کی رسائی آسان ہو اور معذور افراد کی فعال افراد جیسی خدمات کی بدولت معاشرہ مضبوط ہو، کیوں کہ جس معاشرے میں معذور افراد اپنی صلاحیتوں سے بھرپور کام لے سکیں در حقیقت وہی معاشرہ سب سے زیادہ مساوی ہوتا ہے۔
6) معاشرے کو یہ حقیقت تسلیم کروانا کہ معذوری تو محض تناظر کا معاملہ ہے ورنہ انسانیت تو ہم سب کی مشترک ہے؛ لہٰذا اس کمزوری کو تعلیم، فن، اختراع اور ٹیکنالوجی کی بدولت دور کرتے ہوئے معذور افراد کے لیے معاشرے اور عوامی زندگی میں مساوی بنیادوں پر شرکت کے مواقع میسر آ سکتے ہیں۔
7) ایسے پرامن، خوشحال اور منصفانہ معاشرے کی خشت بنیاد رکھنا جس میں باوقار زندگی گزارنا معذور افراد سمیت سب کا حق ہو۔
8) معذور افراد کے لیے قانون سازی کرتے ہوئے ان کی افادیت پر زور ڈالنا۔
اس دن کو منانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے چونکہ معذور افراد میں ان کی معذوری منفی خیالات اور احساسِ کمتری کو پیدا کرتی ہے جس کی وجہ سے ان میں خوف، ہچکچاہٹ اور خود اعتمادی میں کمی واضح دیکھی جا سکتی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ اکثر معذور گھر میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ خود کو تعلیم کے ساتھ ترقی کی بہت ساری راہوں سے دور کرتے ہوئے خواہ مخواہ معذوری کے خول میں قید کر لیتے ہیں کیوں کہ ان پہ سماجی بدنامی، شرمندگی اور امتیازی سلوک کا خوف سوار ہو جاتا ہے۔
معذور افراد میں یہ چیز والدین اور معاشرے کے برتاؤ کی وجہ سے آتی ہے، ورنہ اگر والدین سماج میں بچے کے مضبوط کردار کے ضامن افعال یعنی بچے کی صحت و تندرستی اور اچھی نشوونما پر توجہ دیں تو بچے کو اہمیت ملے گی اور وہ معذوری کے خول سے باہر آ سکے گا۔ اسی طرح والدین اور معاشرے کے دیگر افراد بچے کے تعلیم و کارکردگی کے بارے مضبوط منصوبہ بندی کر کے خود اعتمادی پیدا کر سکتے ہیں بصورت دیگر بچے کے ساتھ نا انصافی ہو گی۔
معذور افراد کی تربیت و نشونما میں اہم کردار والدین کا ہوتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ معذور بچے کی پرورش والدین کے لیے انتہائی صبر آزما اور مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے لیکن والدین کو ہر حال میں چند باتوں کو خیال رکھنا چاہیے۔
1) بچے پر کبھی تشدد نہ کریں۔
2) اپنے گھر کے مسائل کی وجہ بچے کو نہ سمجھیں۔
3) معذور بچے کی پیدائش کو کبھی بھی اپنی نا اہلی مت سمجھیں۔
4) انہیں توجہ دیں، ان کی بات کو اہمیت دیں، انہیں معذور ہونے کا احساس دلا کر شرمندہ نا کریں۔
جن کے معذور بچے ہیں ان والدین پہ توجہ دے کر معذور بچوں کو فعال افراد کی صف میں شامل کرنے میں تعاون کریں۔ ہر سال 3 دسمبر کو سرکاری و نجی جگہوں پر مختلف تقریبات اور پروگرامز ہوتے ہیں یہ آگاہی کے لیے اچھی چیز ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے بلکہ عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔
معذور افراد کے لیے مزید قانون سازی کی جائے اور صرف قانون سازی ہی نہیں بلکہ مزید حساس ہوا جائے۔ عدم توجہ، عدم تعاون اور سہولیات کے فقدان سے معذور افراد معاشرے پر بوجھ تصور کیے جاتے ہیں۔انہیں کار آمد شہری بنانے، معاشرے میں صحیح مقام دلانے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے مستقل طور پر ہر پلیٹ فارم پر ترجیحی بنیادوں پہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں معذور افراد کو سماجی، معاشی اور حکومتی تعاون حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی کئی سرکاری و رفاہی ادارے ذہنی و جسمانی معذور بچوں کو تعلیم و صحت کی اور کام کرنے والے افراد کو روزگار کی سہولتیں فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ جیسا کہ پاکستان میں مختلف ادارے اور شخصیات کام کر رہی ہیں جن میں چند کردار اور پروجیکٹ قابل ذکر ہیں ۔ اسکول برائے معذور افراد، کالجز برائے معذورین، انسٹی ٹیوٹ برائے معذورین، ایجوکیشن سینٹرز برائے معذورین، ری ہیبی لیٹیشن سینٹرز برائے معذورین، ایجوکیشنل کمپلیکس برائے معذورین، ایسوسی ایشنز برائے معذورین، ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز برائے معذورین، ویلفئیر سوسائٹیز برائے معذورین، آرگنائزیشنز برائے معذورین، ٹرسٹ برائے معذورین، کونسلز برائے معذورین، ہیلتھ کئیر سینٹرز برائے معذورین، ترقیاتی پراجیکٹس برائے معذورین، فراہمیِ آرتھوپیڈک سامان برائے معذورین شامل ہیں ان کے ساتھ ساتھ گجرانوالہ سے جناب خطیب احمد جیسی شخصیات بھی معذور افراد کو ویل چیئر اور روزگار مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
ہمارے معاشرے کے 70 فیصد معذور افراد ایسے ہیں جو کام تو کر سکتے ہیں مگر وہ گھروں سے نہیں نکل سکتے کیونکہ ان کے پاس ویل چیئر نہیں ہے۔ حکومتی مشینری کو معذور افراد کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی سکول و کالج اور یونیورسٹی لیول پر بھی انہیں سہولیات فراہم کرنی چاہئیں۔ معذور بچوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم سے اس لیے محروم ہے کہ ان کے کلاس روم منزلوں پر ہیں۔ تعلیم کے بعد دفاتر میں اور ٹرانسپورٹ میں معذور افراد کے لیے سہولیات نہیں ہیں۔
معذور افراد کو الگ سہولیات فراہم کرنا حکومتوں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ تعلیم و ہنر کے ذریعے معذور افراد کی زندگی کو آسان بنانے والی سہولیات کے ساتھ ہی شعور و آگاہی کا بھی فقدان ہے جس کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ مزید یہ کہ معذور افراد کے ساتھ گھر والوں، رشتے داروں، دوستوں اور معاشرے کے افراد کا برتاؤ ان کی زندگی پر گہرے منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ ورنہ معذور لوگ معذوری کو شکست دے کر زندگی کے ہر شعبے میں اپنا لوہا منوا سکتے ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ان کو سہولیات و وسائل فراہم کرنے، ان سے سماجی، سیاسی، معاشرتی اور اخلاقی تعلقات بحال کرنے، زندگی کے ہر شعبے میں ان کی حوصلہ افزائی کرنے، معاشرتی ناانصافیوں کو دور کرتے ہوئے احساسِ محرومی سے نکالنے اور یہ بات تسلیم کر لینے کی ہے کہ موقع دینے سے معذور افراد معاشرے کے فعال افراد بن سکتے ہیں۔
الغرض! ہمارے اداروں کو، معاشرے کو اور ہم سب کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ معذور افراد ہمارے اپنے لوگ ہیں۔ لہٰذا وسائل اور سہولیات فراہم کرنے سے ان کی بہتری اور ترقی ممکن ہے اور ان کی بہتری و ترقی در حقیقت معاشرے کی بہتری و ترقی ہو گی!
