ساجدہ حسین

دن منائیں
مگر محض تہوار سمجھ کر نہیں
…
ساجدہ حسین
عالم اسلام کو عصر حاضر میں بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ انہی مسائل میں مسلہ کشمیر اور فلسطین سرفہرست ہیں۔ یہ دونوں مسائل تقریبا ہم عصر ہیں ایک 1947 میں رونما ہوا اور دوسرا 1948 میں۔ کشمیر کا مسلہ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ تقسیم ہند کا فارمولا یہی تھا کہ مسلم اکثریت والے علاقے پاکستان کو مل جائیں اور ہندو اکثریت والے بھارت کو لیکن کشمیر کے معاملے میں یہ فارمولا نہیں اپنایا گیا۔ بھارت نے بزور طاقت وہاں کے ڈوگرہ راجہ سے الحاق ہندوستان کروا کر تقسیم کے فارمولا کی دھجیاں اڑا دیں اور یہی نہیں بلکہ جموں میں ڈوگروں کی مدد سے مسلمانوں کا قتل عام بھی کروایا گیا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ روز بروز یہ مسلہ زیادہ گمبھیر اور پچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے اس میں ہمارے اہل اقتدار و اختیار طبقے کی غلطیاں اور لا پروائی بھی بڑا اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے بھارت کے لیے یہ ناجائز قبضہ برقرار رکھنا آسان ہو گیا ہے۔ یہ مسئلہ ہمارے لیے 1947 کی نسبت اب زیادہ پریشان کن اور پیچیدہ ہو گیا ہے
یوم کشمیر ہر سال پانچ فروری کو منایا جاتا ہے
اس دن پاکستان ان شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے جنہوں نے کشمیر کی آزادی کی جنگ میں اپنی جانیں قربان کیں۔ ہم یہ دن کشمیریوں کی تحریک آزادی کو تقویت دینے کے لیے مناتے ہیں۔
مگر ایسے میں ایک سوال اٹھتا ہے
اور سوال پوچھنا تو ہر ایک کا حق ہے۔
“اب ذکر زمانہ ہے ناراض نہ ہونا گر نام تمہارا بھی کسی بات میں آئے”
کشمیری عوام کو پاکستان سے جو امیدیں وابستہ تھیں اور وہ اس مملکت خداداد کو آخری سہارے کے طور پر دیکھ رہے تھے ان کی امیدوں پر بھی اوس پڑتی جا رہی ہے اب ہمارا کیا فرض بنتا ہے کہ ان کے ایام(یوم کشمیر’ یوم سیاہ) کیسے منائیں؟
کیا وہ کشمیری ہمارے تعریفی کلمات کے محتاج ہیں؟خدانخواستہ کیا انہوں نے قربانیاں اس لیے دی تھیں کہ قیامت تک ہم ان کو اچھے الفاظ سے یاد کرتے رہیں اور بس، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ میں ان کا دن ہر سال مناتا رہوں اور ان کی یاد میں مختلف طریقوں سے اپنی محبت اور خلوص کا اظہار کرتا رہوں تو کیا ان کی قربانی کا تقاضا پورا ہوگیا، اگر ہم یہ سمجھتے ہیں تو سخت غلطی پر ہیں انہوں نے قربانی ہرگز اس لیے نہیں دی کہ آنے والی نسلیں ان کے کارنامے یاد کر کے خراج تحسین پیش کرتی رہیں۔ اگر ہم تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں ایک بات بڑی واضح نظر آئے گی کہ خدا کو ان لوگوں کا عمل بہت پسند ہے جنہوں نے ظالم حکمرانوں سے ٹکر لی۔ حکم خداوندی ہے جب تلوار اٹھا نے کا وقت ہو تو تلوار اٹھاؤ اور جب عبادت کا وقت ہے تو عبادت کرو یہ نہ ہو کہ وقت جہاد پر بھی آپ دعاؤں کا ہی سہارا لیں یہ بات پسندیدہ نہیں ۔
“نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ دلگیری”
مسئلہ کشمیر کو اگر حل کرنا ہے تو دن منانے کے ساتھ ساتھ سیاسی، سفارتی اور عسکری میدان میں بھی سرگرم ہونا پڑے
گا۔
تحریر: ساجدہ حسین