“ڈوبتا بلوچستان اور بے حس حکمران “
تحریر :آدم رضوی
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جب خلافت کا بوجھ سونپا گیا تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ارشاد فرمایا ” اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر جائے تو اسکا جوابدہ بھی عمر ہی ہوگا-“
اسلام کے ان خلفاء و حکمران کی پیروی کرتے ہوئے اس ملک خداداد کو بھی انہی اصولوں پر بنایا گیا کہ یہاں پہ ہر انسان کو آزادی و حفاظت ریاست ہی دیگی ۔ مگر یہ باتیں ایک نارمل حالات تو کجا ایک کشمکش کی حالت میں بھی آنکھ اوجھل ہیں- ملک پاکستان کے بیشتر حصے سیلاب سے ڈوب گئے ۔ سندھ، خیبر پختون خواہ، جنوبی پنجاب و بلوچستان ایک سمندر کی شکل اختیار کر چکے ہیں ۔ لوگوں کے گھربار، مال مویشی اور زندگیاں اس دریا نما علاقوں میں بہہ گئے ہیں اور اس وقت تک مرکزی حکومت تو خاموش رہا ہی مگر صوبائی حکومتیں بھی خوابِ خرگوش سوگئے ہیں- کچھ دن پہلے مختلف قسم کی مدد کے نعرے لگا کر فنڈز حاصل کرنے والے اور میڈیا پہ آکے دعویٰ کرتے رہے کہ ہم تو اپنی نیند بھی پوری نہیں کرتے اور لوگوں کو ریلیف دیتے رہے بلوچستان کی ایک بھولی بھالی 24 گھنٹوں میں 3 گھنٹے نیند کرنے والی صوبائی حکومت کی ترجمان بھی وزیر اعلی بلوچستان کی طرح غائب ہیں۔
محترمہ کا کسی کو پتہ تک نہیں جو کچھ دن پہلے اسلام آباد میں میڈیا کو کہہ رہی تھی کہ میں 24 گھنٹے میں صرف
3 گھنٹے سوتی ہوں بلوچستان کے عوام کے لیے دن رات کام کرتی ہوں۔
اچانک یہ محترمہ ، وزیر اعلی قدوس بزنجو سمیت پوری کابینہ اور فرینڈلی اپوزیشن کے ساتھ غائب ہیں بلوچستان کے کئی اضلاع میں سیلاب سے کافی انسانی جانیں گئیں-
بلوچستان کے تمام اندرونی اور بیرونی داخلی و خارجی راستے پچھلے ایک ہفتے سے بند ہیں- کئی اضلاع میں 2 ہفتوں سے بجلی نہیں ہے صحبت پور، جعفر آباد،ڈیرہ مراد جمالی،ہرنائی ،ژوب،مچھ بولان، قلعہ عبداللہ، کوئٹہ لسبیلہ،نوشکی،خاران، پشین خضدار اور ڈیرہ بگٹی سمیت بلوچستان بھر میں لوگ سیلابی پانی میں ڈوب گئے ہیں لیکن حکومت کو کوئی پرواہ نہیں ۔ لوگ کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار بیٹھے ہیں ۔ 72 گھنٹوں سے مسلسل بارشوں کی وجہ سے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور کافی مکانات منہدم ہوگئے – شرم کا مقام ہے وفاقی حکومت کے لیے جب ملک کی قرضوں کی بات آئے تو بلوچستان کے وسائلِ یاد آتے ہیں ۔ آج بلوچستان کے لوگ قدرتی آفتوں میں بے یارو مددگار کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں کھانے کے لیے خوراک نہیں لیکن وفاقی حکومت خواب خرگوش میں ہے اور (الیکٹرانک میڈیا ھاؤسز) دن رات ایک شخص کے ساتھ مصروف ہیں کہ اسکے ساتھ جنسی زیادتی ھوئی ہے یا نہیں؟؟
بلوچستان میں لاکھوں کے تعداد میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں لیکن کسی کو کوئی پرواہ ہی نہیں-صحبت پور و جعفر آباد حلقے کے ایم این اے جناب خان محمد خان صاحب ایسے غائب ہیں جیسے پانی میں پتھر اسکی گرنے کی آواز تو آتی ہے مگرآج تک ایم. این. اے صاحب کی تو آواز بھی سننے میں نہیں آئی – شاید سینکڑوں لوگ اس بات سے بھی قاصر ہوں کہ ہماری حلقے سے ایک ایم این اے کو بھی قومی اسمبلی بھیجا جاتا ہے اس کے ساتھ ان اضلاع کے ایم. پی.اے صاحبان کو تو فوٹوگرافی کا ایک بہترین موقع مل جاتا ہے ۔ ایک بار لی گئی تصویر کو مصیبت کے آخری دن تک سوشل میڈیا پر چلاتے رہتے ہیں کہ ہمارا ساتھ تو عوام کے ساتھ آخری سانسوں تک ہے – اس بات میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ ایک غریب کی آخری سانسیں بھی آپ ہی لے کے سکون و چین کی زندگی گزار لیتے ہیں – خدا کے لئے آج بلا تفریقِ مذہب، رنگ و نسل لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے ایک قدم اٹھا لیں غیور جوان آپ کے ساتھ ہیں یہ وقت سیاست کا نہیں سوچنے کا ہے۔ لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں ۔ لوگ بیچ دریا پھنسے ہوئے ہیں اداروں کو حرکت میں لائیں ۔ یہ آپکا فرضِ اول ہے ۔ یہ فرض نبھا کے لوگوں کے قرض اتار دیں –