231

کہانی کا آخری کنارہ/مصنفہ/منزہ احتشام گوندل/تبصرہ نگار/ثمینہ سید

تبصرہ نگار/ثمینہ سید

جب سے انسان ہے تب سے کہانی بھی ہے۔ کسی نہ کسی صورت کہانی ازل سے ہم قدم ہے۔
” کہانی کا آخری کنارہ” منزہ احتشام گوندل کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ہے۔ وہ آخری کنارے تک کیسے پہنچ گئی ہیں یہ افسانے پڑھ کر ہی پتہ چلا۔ کہ ان کی رسائی اور کہانیوں پر گرفت خوب اچھی ہے۔ وہ کھلی آنکھوں سے خواب دیکھ رہی ہیں۔ کچھ خواب ڈراؤنے ہیں، کچھ اقدار اور روایتوں کو کچلتے ہوئے۔ کچھ خواب بھیانک درندوں کی خون ریزیوں کا نوحہ کرتے ہیں۔ بہت کم خواب ہیں جو زندگی کو رنگوں اور پھولوں کی سیج دکھاتے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ منزہ نے حقائق کو ان کی اصلی شکل میں دیکھا ہے اور فطری کاٹ میں لکھا ہے۔
اس سے پہلے ان کے افسانوں کا مجموعہ ” آیئنہ گر” شائع ہوا۔
میں نے ” کہانی کا آخری کنارہ ” کا مطالعہ کیا ہے تو مجھے ایک منفرد اسلوب پڑھنے کو ملا۔ منزہ کے افسانے ان کی تخلیقی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ وہ کہانی لکھنے کے فن سے پوری طرح آگاہ ہیں۔کتاب کےپیش لفظ میں ہی منزہ کے لہجے کی انفرادیت نظر آنے لگی۔ وہ اپنے ارد گرد کے حالات سے کہانیاں لیتی ہیں ان کے موضوعات انوکھے یا مافوق الفطرت نہیں ہیں اور نا ہی وہ تصوف یا جنسیت کا تڑکہ لگا کر افسانے کو پختہ کرتی ہیں بلکہ ان کے ہاں افسانہ خالص اپنے رنگ اور ڈھنگ کے ساتھ اترتا ہے۔وہ اپنے اندر جو دکھ اور ملال محسوس کرتی ہیں۔جن مسائل پر کڑھتی ہیں۔ان کا اپنے افسانے میں ناصرف ذکر کرتی ہیں بلکہ مناسب اور متوقع حل بھی نکالتی ہیں۔وہ اپنے اطمینان کے مطابق معاشرہ تراش کر دکھاتی ہیں۔یا پھر معاشرے کو اس کی بدصورتیوں سمیت پیش کرتی ہیں۔اور فیصلہ قاری پر چھوڑ دیتی ہیں۔ ” آیئنہ گر” کے افسانے اور رنگ کے افسانے تھے۔ ان کے لکھنے میں ان کا ارتقاء صاف نظر آتا ہے۔ وقت اور عمر کے ساتھ ان کا سوچنے کا نظریہ بھی بدلتا دکھائی دے رہا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ مصنف لکیر کا فقیر نہیں ہے بلکہ حالات اسے تجزیہ، تجربہ،تلخی اور نئے ڈھب دے رہے ہیں۔منزہ کے ہاں صرف صفحات نہیں بھرے گئے بلکہ ان کے مضامین میں تنوع ہے۔ ” کہانی کا آخری کنارہ” کے افسانے مجھے ادب کے ایک قاری کی حیثیت سے زیادہ پسند آئے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ منزہ حالات سے نظریں نہیں چراتی بلکہ گہری نظر سے جائزہ لیتی ہے۔ وہ
افسانے کے دامن کو کہانی سے بھرتی ہیں۔موضوعات تشنہ نہیں ہیں۔ وہ جدیدیت کا چرچا نہیں کرتیں۔ موضوعات کو ان کی اصلیت کے ساتھ برت رہی ہیں۔ پختگی مطالعے کا پتہ بھی دیتی ہے۔ کہانی بنانے کا سلیقہ ہم اپنے سے پہلے لکھی گئی کہانیوں اور ان کے مہان تخلیق کاروں سے ہی سیکھتے ہیں۔
منزہ کی کہانی میں جملوں کی بناوٹ،زبان و بیان ماحول کے مطابق ہے۔ تصنع کی کوئی کوشش نہیں ہے۔ اسی وجہ سے منزہ کے افسانے ناصرف دلچسپی لیے ہوئے ہیں۔شناسائی اور معلومات بھی دیتے ہیں۔افسانہ نگار کہانی گھڑتا نظر نہیں آرہا بلکہ کہانی جھیلتا ہوا، سہتا ہوا نظر آرہا ہے۔ یہی ایک کامیاب افسانہ نگار کی پہچان ہے۔ مجھے منزہ کی بیس کہانیوں میں ہر کہانی پہلے سے زیادہ بہتر اور منظم لگی۔ ان کے کردار اپنی کہانیوں میں فٹ اور بولتے ہوئے، چیختے چنگھاڑتے ہوئے، ہنستے روتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ایسا کہیں نہیں لگتا کہ افسانہ نگار موضوع کو سنبھال رہا ہے یا خود بول رہا ہے۔ نہ ہی وہ ناصح بنتا دکھائی دیتا ہے۔ کہانی اپنے حساب سے آگے بڑھتی ہے۔
کردار پست طبقے کے، مڈل، لوئر مڈل اپر مڈل یا مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ تو ان کے انداز اور زبان اسی رہتل کی ہے۔ وہ کرداروں کی نفسیاتی الجھنوں سے بخوبی واقف ہیں اور مہارت سے کہانیاں کنارے تک پہنچانے کا گر جانتی ہیں۔وہ افسانہ نگار کے فرض کو بہت اچھی طرح نبھا رہی ہیں۔موضوعات کو بےنقاب کرتی ہیں۔ان پر مصلحت کے پردے نہیں ڈالتیں۔ ” کہانی کا آخری کنارہ ” کے افسانے افسانہ نگار کے پختہ اسلوب اور منظر نگاری کے فن کے عکاس ہیں۔ان کے افسانے اپنا تاثر چھوڑتے ہیں،قاری کہانی کے منظرنامے اور جزئیات کی گرفت میں رہتا ہے۔
سوالات منزہ احتشام کی کہانی کا خاصہ ہیں۔سسپنس ان کہانیوں کا حسن ہے۔وہ معاشرے کی نباض ہیں۔
مجھے” مفت خورا” ، ” لامکاں “، ” گرہیں”، ” حیات رایئگاں “، ” سرد مزاج عورتوں کے حق میں مکالمہ”، ” انحراف” ، ” راستی” اور ” حبل الورید” نے بہت متاثر کیا ہے۔ ان تمام افسانوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ سماج میں پھیلی سرد مہریوں، زندگی کے پھیکے رنگوں اور سماجی و نفسیاتی تگ و دو میں بستے کرداروں کی طویل داستان کے باوجود یہ مختصر افسانے ہیں۔ مختصر افسانہ ایک اہم فن ہے۔ ماضی وحال، قدیم و جدید یا روایت و جدت کے درمیاں معاشی و سماجی حصارات کو سامنے رکھتے ہوئے اختصار سے کہانی کو نبھانا ایک مشکل کام ہے اور منزہ احتشام گوندل نے یہ کام خوش اسلوبی سے انجام دیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں