42

مولانا قاضی عبدالرشید کا آخری معرکہ/تحریر/اجالا/مولانا عبدالقدوس محمدی

حضرت قاضی صاحب کی زندگی پر بھی رشک آتا تھا اور آج ان کی موت پر بھی رشک آرہا ہے کہ زندگی کے آخری ایام کے صبح شام اور دن رات ختم نبوت کے عظیم مشن پر لگانے کے فوری بعد اپنا انعام لینے روانہ ہوگئے۔۔۔سپریم کورٹ میں بھی سرخرو ٹھہرے اور جس جہاں گئے وہاں بھی ان شاءاللہ سرخرو ٹھہریں گے۔۔۔یہاں حضرت قاضی صاحب جب خوب محنت کرتے تھے،خوب بھاگ دوڑ اور جہد مسلسل کے بعد حضرت شیخ سلیم اللہ خان صاحب،ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب،مفتی محمد تقی عثمانی صاحب،مولانا محمد حنیف جالندھری صاحب اور دیگر علماء سے ملتے تھے تو ان کی خدمات اور جہد مسلسل پر بڑوں سے ان کو شاباش ملتی تھی

مولانا قاضی عبدالرشید صاحب بھی چل دئیے۔۔۔وہ بلامبالغہ ایک فرد نہ تھے بلکہ ایک تحریک تھے۔۔۔تحریکوں کے روح رواں۔۔۔کوئ بھی موقع ہوتا— کوئ بھی معاملہ ہوتا تو نظر ان کی طرف اٹھتی تھی۔۔دھیان ان کی طرف جاتا تھا—اور پھر وہ فکرمند ہوتے—متحرک ہوتے—-مشاورت ہوتی—فیصلہ ہوتا اور چل سو چل—یہ جو اسلام آباد راولپنڈی کے علماء کی اجتماعیت،اتحاد و یک جہتی اور تحرک ہے اس کی بنیاد حضرت قاضی صاحب تھے۔۔۔بڑی بڑی تحریکوں کی ابتداء حضرت قاضی صاحب نے کی اور انہیں اپنے منطقی انجام تک پہنچایا۔۔۔ان کے بارے میں لکھنے اور کہنے کے لیے بہت کچھ ہے۔۔۔بہت کچھ۔۔ان کی شخصیت لاجواب تھی۔۔۔دور نہ جائیے۔۔۔کوئ اور قصہ اس وقت چھیڑنا شاید ممکن نہیں ابھی حال ہی میں ختم نبوت اور سپریم کورٹ کا معاملہ ہی دیکھ لیجیے۔۔۔ختم نبوت کے اس معرکے میں ایسے والہانہ،عاشقانہ اور مجاہدانہ انداز سے شریک رہے کہ رشک آتا تھا۔۔۔وہ صرف خود نہیں کام کرتے تھے بلکہ انہیں کام لینے کا ہنر آتا تھا۔۔۔وہ جب اور جدھر چلتے تھے تنہا نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کے ساتھ قافلے ہوتے تھے۔۔ایک ایک کو خود فون کرتے تھےنوجوان دیر سے آتے وہ پہلے پہنچے ہوتے۔۔۔۔۔چھوٹے کم ہمتی کرتے اور ان کا عزم و حوصلہ دیکھنے والا ہوتا۔۔۔ہر دن اجلاس،مشاورت،لابنگ،تشکیلیں،دعوتی مہم،قرب وجوار کی تحصیلوں اور علاقوں کے طوفانی دورے،روز ہی ملاقات ہوتی۔۔۔۔روز ہی ان سے کچھ نیا سیکھتے تھے۔۔۔روز ہی انہیں دیکھ کر تازہ دم ہوجاتے تھے۔۔ہرباران کے احسانات کا بار اٹھائے لوٹتے تھے ۔۔۔
19اگست کے مظاہرے کے لیے محنت ہی نہیں کی کمال کیا الحمدللہ اپنی نوعیت کا تاریخ ساز،شاندار اور یادگار مظاہرہ ہوا۔۔۔۔مسلسل چلاتی دھوپ پر کھڑے رہے۔۔۔۔ایک بیدار مغز سپہ سالار کی طرح قیادت بھی فرمائ۔۔۔۔ہر پہلو پر نظر بھی رکھی۔۔۔۔مخالفین کو للکارتے بھی رہے اور اپنوں کو ہدایات بھی دیتے رہے۔۔۔اے پی سی میں شرکت کی۔۔۔مولانا محمد حنیف جالندھری صاحب کا تین دن اسلام آباد میں قیام رہا ان کے بھی شانہ بشانہ۔۔۔چھوٹوں پر بھی نظر۔۔۔اے پی سی میں گفتگو سے فارغ ہوئے تو بنی گالہ کے علماء نے 19اگست کے مظاہرے کے حوالے سے اجلاس رکھا تھا اس کے لیے میرے کہنے پر وقت دیا تھا ساتھ لیا اور بنی گالہ گئے راست میں کی امور پر مشاورت ہوتی رہی۔۔۔علماء کرام سے بھی تفصیلی گفتگو فرمائ۔۔۔کل مولانا مفتی مجیب الرحمٰن صاحب کے ہاں سپریم کورٹ کی فتح مبین کے حوالے سے اجلاس اور ظہرانہ تھا اس میں تشریف لائے۔۔۔ حسن اتفاق سے میں دروازے پر ہی کھڑا تھا۔۔۔چہرے سے نقاہت اور تھکن عیاں تھی۔۔میرا ہاتھ تھامے اندر تشریف لائے۔۔علالت کے باعث بالائ منزل پر تشریف نہ لے جاسکے۔۔۔فرمانے لگے تین دن سے طبیعت ناساز ہے دل میں درد ہورہا ہے لیکن اس لیے آیا کہ ساتھی کہیں گے کہ ہمیں دعوت دے کر خود نہیں آئے۔۔۔پھر پورے پروگرام میں بیٹھے رہے۔۔۔آخر میں بیان فرمایا اور کیا ہی خوب بیان فرمایا۔۔۔۔وہی روایتی تسلسل۔۔۔وہی روانی۔۔۔۔وہی جولانی۔۔۔وہی الفاظ کے پروئے ہوئے موتی۔۔۔مفتی مجیب الرحمٰن صاحب نے کمرشل مارکیٹ کے پاس ایک ریسٹورنٹ میں ظہرانے کا انتظام کر رکھا تھا وہاں تشریف لے گئے۔۔۔ان کی شخصیت باغ و بہار تھی۔۔۔جہاں ہوتے اس محفل کو گل و گلزار کیے رکھتے۔۔۔کھانے سے فارغ ہوکر دروازے سے نکلنے لگے تو رک کر مجھے مخاطب فرما کر بہت سی باتیں کیں اور اسلام آباد سمیت دیگر علاقوں کے ساتھیوں کو دعوت کرنے کے بہانے مل بیٹھنے کا فرماتے رہے۔۔۔چونکہ ہم لوگ حال ہی میں برادرم مولانا عبدالروف محمدی کے بائ پاس کے مرحلے سے گزرے ہیں اس لیے دل کے عارضے کے حوالے سے فکرمندی اور حساسیت فطری ہے اس لیے حضرت سے بھی تفصیلا اس موضوع پر بات ہوئ اور ڈاکٹر عدیل صاحب سمیت دیگر ڈاکٹرز اور ہسپتالوں کے بارے میں حضرت سے بھی بات ہوئ
اور بھائ جنید سے بھی کہا کہ آپ نے زبردستی علاج کا معاملہ دیکھنا اور آرام کروانے کی کوشش کرنی ہے۔۔لیکن وہ کہاں آرام کرنے والے تھے اس سال حج پر روانہ ہونے لگے تو مسلسل دھڑکا سا لگا رہا لیکن اللہ کریم نے کرم فرمایا اور ہمت دی۔۔۔۔بس انسان سوچتا ہی رہ جاتا ہے۔۔۔اپنی تدبیر ہی کر سکتا ہے رب ذوالجلال کی تقدیر غالب آکر اور اس کا فیصلہ نافذ ہوکر رہتا ہے۔۔۔اج دل کے ہسپتال میں اپائنٹمنٹ تھی بلکہ اس سے عجیب بات رات عشاء کے وقت کچھ ساتھی آئے اور اپنے ایک عزیز کا آج عصر کے بعد جنازہ پڑھانے کی درخواست کی اور آج اسی وقت حضرت کی اپنی نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔۔۔
حضرت قاضی صاحب کی زندگی پر بھی رشک آتا تھا اور آج ان کی موت پر بھی رشک آرہا ہے کہ زندگی کے آخری ایام کے صبح شام اور دن رات ختم نبوت کے عظیم مشن پر لگانے کے فوری بعد اپنا انعام لینے روانہ ہوگئے۔۔۔سپریم کورٹ میں بھی سرخرو ٹھہرے اور جس جہاں گئے وہاں بھی ان شاءاللہ سرخرو ٹھہریں گے۔۔۔یہاں حضرت قاضی صاحب جب خوب محنت کرتے تھے،خوب بھاگ دوڑ اور جہد مسلسل کے بعد حضرت شیخ سلیم اللہ خان صاحب،ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب،مفتی محمد تقی عثمانی صاحب،مولانا محمد حنیف جالندھری صاحب اور دیگر علماء سے ملتے تھے تو ان کی خدمات اور جہد مسلسل پر بڑوں سے ان کو شاباش ملتی تھی، اکابر ان کا ماتھا چومتے تھے،ان کی تحسین فرماتے تھے،معاصر اور جونیئر مفتی مجیب الرحمٰن صاحب کی طرح ان کے اعزاز میں استقبالیے،ظہرانے اور عشائیے دیا کرتے تھےذرا تصور کیجیے کہ اب جب قاضی صاحب اپنے رب کے دربار میں پہنچیں گے۔۔۔بارگاہ رسالت میں حاضر ہوں گے تو ان کو نہ جانے کیسے نوازا جائے گا اور کس کس انداز سے ان کا اعزاز و اکرام ہوگا
میرے والد صاحب رحمہ اللہ کے جنازے پر تشریف لائے تو گفتگو کرتے ہوئے فرمایا اور اکثر جنازوں میں فرمایا کرتے تھے کہ جب حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کا آخری وقت تھا تو ان کی زوجہ محترمہ نے واکرباہ کہا کہ دکھ اور غم کا موقع ہے جس پر حضرت بلال نے فرمایا یوں نہ کہو بلکہ یوں کہو واطرباہ آج غم اور پریشانی نہیں بلکہ خوشی اور مسرت کا دن ہے رب ذوالجلال سے ملاقات ہوگی۔۔۔آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری ہوگی۔۔۔احباب و رفقاء سے ملیں گے-
واہ قاضی صاحب ! آپ خوش نصیب تھے۔۔زندگی کا آخری معرکہ ختم نبوت کا لڑا۔۔۔کس ہمت اور محنت سے لڑا اور کس شان سے جیتا اور پھر اتنی جلدی اور اتنی تیزی سے اپنا انعام پانے چل دئیے…آپ کے لیے تو آج کا دن بلاشبہ مسرت و خوشی اور انعام و ارام کا دن ہے۔۔۔لیکن ہمیں آپ یتیم اور تنہا اور بہت دکھی کر گئے ہیں۔۔۔اللہ کریم حضرت قاضی صاحب کے ساتھ اپنے خصوصی کرم والا معاملہ فرمائیں۔۔آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں