اسلام کے علاوہ چھ مذاھب کے پیروکار روزے رکھتے ہیں۔ ان مذاھب میں روزہ رسم کے طور پر رکھا جاتا ہے نہ کے بطور حکم، عبادت اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کا پورا ہونا اور اجرو ثواب کے حصول کے لیے نہ کہ حکم کی تعمیل کے لیے روزہ رکھا جاتا ہے۔
دیگر مذاھب کے روزے میں اخلاص کی روح بالکل نہیں پائی جاتی ہے۔ ان کا مقصد محض اپنے پیشواؤں، معبودوں اور نفس کی خواہش پوری کرنے کے لیے اپنایا جاتا ہے، یا بطور شکرانہ کے رکھا جاتا ہے، یا اپنی نجات کی خوشی میں یا سزا پانے کے غم میں رکھا جاتا ہے، صرف اسلام ہی وہ واحد مذھب ہے جس نے روزے کی روح اور مقصد پر واضح روشنی ڈالی ہے۔ روزے کا مقصد اور منشاء کیا ہے۔ روزہ کا روحانی، باطنی اور اخلاقی فائدوں کو، اور مواسات، ایثار وقربانی جیسے جزبات کو واضح کیا ہے۔ اسلام نے روزوں کو سال بھر کی عبادات میں معاون ثابت ہونے کے لیے رمضان کے مہینے کو تربیتی پروگرام کے طور پر بنا دیا ہے۔
اس کے ذریعے ہم اصلاح کر سکتے ہیں ہمارے اندر جو کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں اور ہم طرح طرح کی روحانی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اس کا علاج ممکن ہے اس مقدس مہینے میں۔
فرائض، واجبات، دیگر اعمال صالحہ، صدقات وخیرات،معملات اور اخلاق حسنہ سے غافل ہو جاتے ہیں ان کی اصلاح کے لیے ایک مہینہ بطور انعام اللہ رب العزت نے روزے فرض کر کے دے دیا تاکہ جو کمی بیشی عام دنوں میں رہ گئی ہے وہ پوری ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے بدلے میں ملنے والی رحمتیں، برکتیں سمیٹنے کے لیے، مغفرت اور جہنم سے برات دی جاتی ہے۔ اس ماہ کو قرآن کریم کا مہینہ قرار دیا گیا اس لیے کہ اسی ماہ مبارک میں قرآن عظیم الشان کا نزول شروع ہوا۔ کتب احادیث اور تاریخ کے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قریش مکہ مکرمہ میں زمانہ جاہلیت میں دسویں محرم کو روزہ اس لیے رکھتے تھے کہ اس دن کعبہ پر غلاف ڈالا جاتا تھا۔ مدینہ منورہ میں یہودی اس لیے دسویں محرم کا روزہ رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون سے اس دن نجات دی تھی۔ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل امتوں میں بحیثیت عبادت روزہ جانا پہچانا جاتا تھا۔ یہودی اور عیسائی گناہ کے کفارہ کے طور پر یا توبہ کی خاطر رکھا کرتے تھے۔ زمانہ قدیم کے لوگ خدا کی وحدانیت اور خدا کے وجود سے ضرور لا علم تھے لیکن ان کے ذہن میں کسی ایسی ہستی اور طاقت کا تصور ضرور تھا جو ان کی تقدیر پر دسترس رکھتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ روحانی بالیدگی کے حصول، گناہوں سے توبہ، ایثار و قربانی کے خاطر روزہ رکھتے تھے۔ مذھب اسلام کے علاوہ جن مذاھب کے پیروکاروں کو روزہ رکھنا پڑتا ہے وہ یہ ہیں۔ “یہودیت” یہودیت میں “یوم کفارہ ” کے دن روزہ کے دن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہودی کلینڈر میں چھ روزے پائے جاتے ہیں ان میں “تشابائو” کے دن کا روزہ بھی شامل کیا جاتا ہے جس روز ” یروشلم” میں یہودی معبودوں کو تباہ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ “بدھ مت” سے تعلق رکھنے والے تمام فرقوں میں سال کے کچھ دنوں میں روزہ رکھتے ہیں۔ ان میں چاند کے پورے دن اور ایام شامل ہیں۔ “کھیتولک مذھب” کھیتولک مذھب عیسائیوں کا اہم مذھب ہے۔ اس مذھب سے تعلق رکھنے والے عیسائی “ایش ویلنس ڈے” اور ” گڈ فرائیڈے” کو روزہ رکھتے ہیں اس کے علاوہ کھیتولک عیسائی نفس کشی کی مدت میں آنے والے تمام جمعے کے روز گوشت کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔ ہندومت مذھب میں نئے چاند کے موقع پر اور “شوراتری” اور اس جیسے دیگر تہواروں کے موقع پر روزے رکھنا عام ہے۔ مورونز مذھب سے تعلق رکھنے والے افراد ہر مہینے کے پہلے اتوار کو روزہ رکھتے ہیں۔ بہائی مذھب سے تعلق رکھنے والے افراد بہائی سال کے 19ویں مہینے میں یعنی 2 سے 20 مارچ تک جو “ایلا” کہلاتا ہے روزے رکھتے ہیں۔ پارسی مذھب کی ابتدا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے چھ سو سال پہلے فارس “ایران” میں ہوئی تھی اس مذھب کے پیروکار روزے رکھتے ہیں۔ جین مذھب میں بھی ہندومت کی طرح سنیاسی مقدس مقامات کی زیارت کے دوران میں روزے رکھتے ہیں۔
