26

درد دل/تحریر/ام حمدان

ہمارے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے بوقت ضرورت دین کے ہر شعبے کو اختیار کر کے امت کے لئے مثال قائم کی جب حالات درس وتدریس اور تبلیغ کے متقاضی ہوئے تو آپ مبلغ و معلم بن گئے ۔
جب حالات جہاد کے متقاضی تھے تو آپ نے ” ہر ایک ” کو تیاری کا حکم دیا کہ نکلو اللہ کی راہ میں خواہ تم ہلکے ہو یا بوجھل ۔۔۔۔۔۔ بغیر شدید عذر جہاد سے پیچھے رہ جانے والوں سے شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا ستر دن تک ان سے کلام نہ فرمایا ۔
جب امن ہوا تو اعمال صالحہ کی ترغیب دلائی مدرسہ و خانقاہ کا ماحول دیا ۔

ہمارے ہاں دین کے کسی ایک شعبے کو اختیار کر کے زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لیا جاتا ہے ۔ باقی شعبوں سے خواہ مخواہ کا بیر پال لیا جاتا ہے ۔ کسی نے تبلیغ کو ہی کل دین سمجھ لیا ہے تو کسی نے مدرسے و خانقاہ کو،۔ کوئی خیراتی کاموں کو ہی اسلام سمجھ رہا ہے تو کوئی بحث ومباحثہ میں مگن جنت کی امیدیں لگائے بیٹھا ہے ۔
ہم کب صحیح معنوں میں اسلام کو سمجھیں گے ؟؟؟؟
جب امت کا ایک حصہ شدید تکلیف میں ہے اور باقی حصوں کو مدد کے لیے پکارتا ہے تو پھر حالات کا تقاضا تبلیغ ،خانقاہوں مدرسوں اور عبادات کی مشغولیت کا جواز ختم کر دیتا ہے ۔ پوری امت پہ جہاد فرض ہو جاتا ہے ۔
خدارا دین کے خادموں ہوش میں آؤ ۔۔۔۔۔۔ دین کے تمام شعبے ہمارے ہیں ، تبلیغ بھی ہماری ہے۔ خانقاہیں اور مدارس بھی ہمارے ہیں بوقت ضرورت خیرات کے کام بھی ہم نے ہی کرنے ہیں ۔ اس لیے کہ ہمارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مدرس بھی تھے ، مبلغ ومربی بھی تھے اور جب ضرورت پڑی جہاد کی تو آپ مصلی بچھا کر ہاتھ پھیلائے مسجد میں نہیں بیٹھے رہے تھے ۔

ان حالات میں جبکہ ہر وہ شخص جو کسی بھی جگہ لوگوں کو اپنی آواز سنوا سکتا ہے خواہ وہ صاحب منبر ہے یا معلم ومدرس ومبلغ ۔۔۔۔۔۔ ہر ایک پہ لازم ہے کہ بحیثیت امت ہر مرد پہ نہ صرف جہاد کے فرض ہونے کا پیغام پہنچائے بلکہ ترغیب وتحریض بھی اس کا فرض ہے ۔
اگر آج ہم نے اس فریضے کو ادا نہ کیا تو نجانے کیسے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا کرنے کی جسارت کر پائیں گے ؟ یعنی آپ اس کے بارے میں سوچ بھی کیسے سکتے ہیں ؟؟؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں