شاعری/کوکی گل
زمیں پھٹ رہی، آسماں رو رہا ہے
گناہوں سے بوجھل، جہاں ہو رہا ہے
ہے ہنگامہ برپا، مگر تو نے حاکم
نہ دیکھا کبھی بھی، کہاں ہو رہا ہے
کہاں تک ہے لوگوں میں سہنے کی طاقت
کبھی آہ تھی، اب فغاں ہو رہا ہے
کبھی تھا یہ خطہ بھی امن و سکوں کا
تو کیوں جائے عبرت، نشاں ہو رہا ہے
سبھی پھول کوکی! یہ مرجھا رہے ہیں
کہ جنگل کا جنگل، خزاں ہو رہا ہے