/تحریر/طاہر ایوب جنجوعہ
7 ستمبر کا دن اس کائنات کی بےپایاں نیلگوں فضاؤں میں محو پرواز پاکستانی شاہینوں کے نام سے منسوب ہے, جن کی فلک ناز اڑانوں کے سبب آج ہم ایک آزاد ملک کی آزاد اور پرسکون فضاؤں میں آزادی کی سانسیں لے رہے ہیں, اور جو مادرِ وطن کی عزت و ناموس اور پوری قوم کی حفاظت کے لیے دن اور رات کے تفاوت کی پرواہ کیے بغیر اپنے فرائض جانفشانی سے سرانجام دیتے ہیں۔ 6 ستمبر یوم دفاع کی سالانہ تقریبات کے بعد اگلے روز 7 ستمبر کو یوم فضائیہ کے نام سے مخصوص کیا گیا ہے۔ اس دن مٹی کی محبت کے آشفتہ سروں کی کاوشوں اور قربانیوں کو یاد کیا جاتا ہے, خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے, بلند ہمتی, عالی حوصلگی اور جراٗت و شجاعت کے عزم نو کا اعادہ کیا جاتا ہے۔ پاک فضائیہ کے اعزاز میں ایئر شوز منعقد کیے جاتے ہیں۔ ائیر ہیڈ کوارٹرز میں ہمہ رنگ تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ نئے کیڈٹس اور نوجوان آفیسرز کو پاک فضائیہ کے ماضی اور حال کی شاندار روایات سے روشناس کروایا جاتا ہے۔ بلاشبہ ہمارے شاہینوں کے یہ بڑے بڑے کارنامے آج بھی جب کہیں کسی کو بھی پڑھنے یا سننے کو ملتے ہیں تو جوش وخروش کی ایک عجب سی لہر رگوں میں دوڑ اٹھتی ہے۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بری اور بحری افواج کے ساتھ ساتھ پاک فضائیہ کے بھی دشمن کو منہ توڑ جواب نے نہ صرف دفاع وطن کا حق ادا کر دیا بلکہ پاک فضائیہ کے ایک شیر اور ” لٹل ڈریگن” کا لقب پانے والے پاک فضائیہ کے جانباز اسکواڈرن لیڈر “ایم ایم عالم” نے صرف 60 سیکنڈ میں ہی بھارت کے پانچ ہاکر ہنٹر فائٹرزجہازوں کو نشانہ بنا کر گرا دیا جو دنیا میں فضائی جنگ کی تاریخ میں آج بھی ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ اور جسے گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی درج کیا جا چکا ہے۔
6 ستمبر 1965ء کو جنگ کے پہلے ہی دن‘ بھارتی حملے کے جواب میں پاک فضائیہ کے شاہینوں نے اپنی بری افواج کے ہمراہ پٹھان کوٹ‘ آدم پور اور ہلواڑہ کے ہوائی اڈوں پر حملہ کرکے‘ دشمن کے 22 طیارے اور متعدد ٹینک‘ بھاری توپیں اور دو سے زائد اسلحہ ڈپو تباہ کر دیے, لیکن جنگ کا اگلا دن‘ یعنی 7 ستمبر 1965ء کا دن تو پاک فضائیہ کے لیے ایک نئے دور کا سورج لے کر طلوع ہوا۔ پاک فضائیہ کے طیارے‘ سرگودھا کے ہوائی اڈے پر‘ طلوع آفتاب سے پہلے ہی بھارت کے ممکنہ حملے کے دفاع کے لیے تیار کھڑے تھے۔ دشمن اپنے بھاری بھرکم نقصان کی بدولت کسی زخمی سانپ کی طرح پھنکارتا ہوا دوبارہ حملہ آور ہوا لیکن پاک فضائیہ کے جانباز پائلٹس کے جذبۂ ایمانی کے سامنے پل بھر بھی نہ ٹک سکا, اور فوراً راہ فرار اختیار کر لی, پاکستانی طیاروں نے ان کا پیچھا کیا, لیکن وہ بھاگنے میں کامیاب ہوا, لیکن اس دوران بھی اسے اچھا خاصا بھاری جانی مالی نقصان اٹھانا پڑا ۔
اور پھر وفا کے پتلوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جوابی حملے میں لدھیانہ‘ جالندھر‘ بمبئی اور کلکتہ کے ہوائی اڈوں پر ایک بھرپور فضائی دھاوا بول دیا, دشمن کو اس طرح کے اچانک رسپانس کی امید نہیں تھی, وہ خود کو سنبھالنے میں شدید ناکام ریا اور یوں ایک بار پھر پاک فضائیہ کے شاہینوں نے اربوں روپے مالیت کے درجنوں طیاروں کو کباڑ خانے میں پڑے ٹین ڈبوں کی طرح بنا دیا, اس حملے میں بھارت کے 31 طیارے تباہ ہوئے۔
7 ستمبر کی شام تک پاک فضائیہ نے بھارت کے مجموعی طور پر 53 طیارے تباہ کرکے ناقابل شکست فضائی برتری حاصل کر لی تھی۔ اس کے بعد جنگی بندی تک‘ ماسوائے چھوٹی موٹی سرحدی جھڑپوں کے‘ بھارتی فضائیہ نے کبھی بھی پاک فضائیہ کے اس تسلط کو چیلنج نہیں کیا جو اس نے فضائوں میں پہلے ہی روز قائم کرلیا تھا۔ پاکستان کے لیے فضائی جنگ 6 ستمبر کو شروع کی گئی تھی جسے پاک فضائیہ نے اگلے ہی دن یعنی 7 ستمبر ہی کو جیت لیا۔
پاک فضائیہ کی یہ فضائی برتری کا آج کئی عشروں بعد اسی طرح سکہ قائم ہے جس کی بڑی مثال 27 فروری 2019 کو دو انڈین مگ طیاروں کی تباہی ہے جنہیں پاک فضائیہ کے دو جانباز سپاہیوں ونگ کمانڈر نعمان علی, اور حسن صدیقی نے مار گرایا, اور ایک پائلٹ ابی نندن کا زندہ گرفتار کر لیا۔ پاک فضائیہ کی یہ نفسیاتی اور عددی برتری ہمارے ازلی دشمن پر ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی رہی, اور مزید بھی بڑھتی جائے گی۔ ان شاء اللہ
بلاشبہ پاکستان ائرفورس نہ صرف پاکستانی قوم کے لیے ایک فخر کی علامت ہے بلکہ عالَمِ اسلام کے لیے بھی اُمید کی ایک کرن ہے۔ بلاشبہ ہمیں اپنی فضائیہ پر فخر ہے جس نے ہر کڑے وقت پر امن اور جنگ کے دوران اپنی طاقت اور صلاحیت کو ثابت کیا ہے۔ پاکستان فضائیہ اس وقت نہایت جدید ٹیکنالوجی سے لیس ایک مضبوط اور باوقار فضائیہ ہے, جس کی صلاحیتوں میں آئے روز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب ہم
شاعرِ مشرق کا ’’پیامِ مشرق‘‘ میں مسلمان قوم کو دیا ہوا یہ مُژدۂ جانفزا پاک فضائیہ کے عزم کی علامت بھی ہے اور طاقت کا ترجمان بھی,پر ضرور عمل پیرا ہوں گے۔ ان شاء اللہ:-
’’صحراست کہ دریاست تہِ بال و پرِِ ماست‘‘
’’صحرا ہو کہ سمندر ، ہماری طاقتِ پرواز کے نیچے ہے-‘‘