95

پرس/مزاحیہ تحریر/انیلہ افضال ایڈووکیٹ

تحریر/انیلہ افضال ایڈووکیٹ

فکر معاش نے ازل سے انسان کو گھیرے رکھا ہے، اب وہ چاہے ازمنہ قدیم ہوں یا دور جدید۔ رہنے کے لیے غار کا بندوبستی ہو یا ہزار گز کے بنگلے کا، شکار کر کے گوشت کچا کھانا ہو یا پانچ ستارہ ہوٹل کا بوفے ہو، پتوں کی ارینجمنٹ ہو یا ڈیزائنر ڈریس؛ روٹی کپڑے اور مکان نے ہمیشہ انسان کو جکڑے رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور چیز جو ہر دور میں انسان کی ضرورت رہی ہے وہ ہے پرس! جی ہاں ! پرس جسے کچھ دیائیاں پہلے تک ہمارے ہاں بٹوہ کہا جاتا تھا۔ پرس یا بٹوہ بڑے کام کی چیز ہے۔ پرس کی ایجاد ہزاروں سال قبل ہی ہو گئی تھی۔ حال ہی میں جرمنی میں ایک قدیم پرس دریافت ہوا ہے۔ جو کتے کے دانتوں سے تیار کیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ پرس تقریباً چار ہزار پانچ سو برس پرانا ہے۔ ہمارے خیال میں تو جب انسان پتوں کا لباس زیب تن کرکے پتھروں سے شکار کرنے نکلتا ہو گا اس وقت بھی اپنے ہنٹنگ آئٹمز کو رکھنے کے لیے کسی نہ کسی صورت میں پرس کا استعمال کرتا ہی ہو گا۔ گویا پرس کا استعمال بہت پہلے ہی شروع ہو گیا تھا لہذا اسے دور حاضر کی ایجاد سمجھنے کی غلطی ہر گز نہ کریں۔
وقت کے جہاں ہر چیز کو جدت بخشی ہے وہیں پرس بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہے۔ کبھی تھیلی تو کبھی جھولے کی شکلیں اختیار کرتا یہ پرس آخر اس دور میں آ پہنچا ہے جہاں آپ کو ہر سائز اور ہر شیپ کے پرس مل جائیں گے۔ ایک وقت تھا کہ خواتین کے پرس کا سائز ایک ہتھیلی کے برابر ہوتا تھا جسے وہ بڑی محبت سے بٹوہ کہا کرتی تھیں اور حفاظت کی غرض سے سینے سے لگا کر رکھتی تھیں۔ پھر وقت نے کروٹ بدلی اور بٹوہ پرس میں تبدیل ہو گیا۔ نام کے ساتھ ساتھ اس نے اپنی جسامت، اور ہیئت بھی تبدیل کر لی۔ پرس چھوٹا ہو یا بڑا اس کا مقصد یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ صاحب پرس کے پاس اس میں رکھنے کے لیے کچھ اہم چیز موجود ہے۔ جیسے آج کل آپ کو پرس میں پیسے تو شاید ہی ملیں البتہ موبائل فون آپ کو تقریباً ہر پرس میں مل جائے گا۔ یہاں یہ غلط فہمی بھی دور کرتے چلیں کہ پرس پیسے سنبھالنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نہیں صاحب! پرس میں آپ کو پیسے ملیں نہ ملیں ، موبائل فون ، رومال، ریستوران سے اٹھائے گئے ٹشو پیپر، کیچپ کے ساشے، کچھ میک کا سامان، ایک کنگھا ایک پاکٹ سائز پرفیوم، ایک گلاس، نظر کا چشمہ ، دھوپ کا چشمہ، سوئی دھاگا، نیل کٹر، بسکٹ کے پیکٹ ، جن میں موجود بسکٹس چورے کی شکل اختیار کر چکے ہوتے ہیں، دو تین بینڈ ایڈ، سینی ٹائزر، پیپر سوپ، کچھ کینڈیز، کافی کے ساشے، پیزا شاپ سے چرائے گئے اوریگانو اور دیگر ہربز کے پیکٹس، کئی وزٹنگ کرڈز، شاپنگ کی رسیدیں، بخار اور سر درد کی گولیاں اور بھی نہ جانے کیا کیا۔
خواتین اپنے پرس کے معاملے میں خاصی جذباتی واقع ہوئی ہیں۔ وہ خود تو زمین پر بیٹھ جائیں گی لیکن پرس کو بھی زمین پر نہیں رکھتیں۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ پرس خاصا قیمتی ہو سکتا ہے اسے زمین پر رکھنے سے وہ برا مان سکتا ہے؛ دوسرے وہ پرس میں موجود سامان کے بارے میں کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتیں؛ تیسرے یہ کہ پرس کو گود میں رکھنے سے بیلی فیٹ کو چھپانے میں بھی کافی آسانی رہتی ہے۔ وجہ چاہے کچھ بھی ہو خواتین اپنا بچہ تو ساتھ والی کرسی پر بٹھا دیں گی لیکن اپنا پرس اپنی گود میں ہی رکھیں گی۔ لیڈیز پرس میں مختلف اقسام دستیاب ہوتی ہیں۔ جن میں سائز ، کلر ،اور بناوٹ کے اعتبار سے ورائٹی دستیاب ہوتی ہے۔ پرس کپڑے ، چمڑے اور ریکزین سے بنائے جاتے ہیں۔ میٹیریل کوئی بھی یوں اسے خریدنے میں کھال تو مردوں کی ہی کھینچی جاتی ہے۔ گئے برسوں میں حنا ربانی کھر کے پرس نے جو شہرت پائی وہ شاید ہی کسی مائی کے لال کے حصے میں آئی ہو۔ چلیں انہیں تو یہ اللے تللے شاید سوٹ بھی کر جاتے ہیں ، لیکن ان کی دیکھا دیکھی جو ہمارے درمیانے طبقے کی خواتین ہلکان ہوئی جاتی ہیں ان کا کیا۔ جس دھڑلے سے یہ خواتین لنڈے کی ریڑھیاں الٹ پلٹ کر کے پرس خریدتی ہیں اور پھر جس کانفیڈینس سے انہیں ہاتھ میں پکڑ کر حنا ربانی کھر اور لیڈی ڈیانا والی فیل لیتی ہیں الامان الحفیظ! چلیں جی ہمیں اس بات پر بھی کوئی اعتراض نہیں کہ آپ نے پرس کہاں سے خریدا اور آپ کا کانفیڈینس لیول کیا کہتا ہے، لیکن خدا کے واسطہ ہے برانڈز کے نام تو غلط نہ لیا کریں اور ذرا یہ تو بتائی کہ وہ کون سے انکل ہیں جو ریڑھی والے پٹھان کے ہاتھ آپ کو اٹلی، فرانس اور لندن سے چینل اور لوئس ووٹوں کے بیگز بھیجتے ہیں۔
آج کل تو پرس ، بیگز ، ہینڈ بیگز ، بٹوے اور والٹ کا معاملہ خاصا پیچیدہ ہو گیا ہے۔ ایک پرس یا بیگ پر ہی بس نہیں ہوتی۔ ایک بڑا شولڈر بیگ ہوتا ہے ، جس کے اندر ایک وینٹی پاؤچ، ایک گاگل پاؤچ، ایک والٹ ہوتا ہے، اور ہاں ہینڈ بیگ اس کے علاؤہ ہوتا ہے۔ خواتین کو آفس کے لیے ایک طرح کا بیگ چاہیئے ہوتا ہے۔ شاپنگ کے لیے جائیں تو دوسری طرح کا بیگ، شام کی پارٹی کے لیے تیسری طرح کا کلچ، شادی کے فنکشن میں ایک اور ٹائپ کا ہینڈ بیگ، اور تو اور اب تو فوتگی کے لیے بھی ایک چھوٹا سائز کا پرس چاہیے ہوتا ہے۔
پرس یا بٹوے کا استعمال صرف خواتین پر ہی موقوف نہیں۔ مرد حضرات بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ اب تو مردوں کے لیے مختلف برانڈز کے اور مختلف کلرز کے پرس دستیاب ہیں۔ البتہ ان کی پاس خواتین کی نسبت ورائٹی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک والٹ جو قمیض یا ٹراؤزرز کے جیب میں سما جائے۔ ایک شولڈر بیگ جسمیں لیپ ٹاپ رکھا جا سکے، اور بس! دل مست ملنگ ہو جاتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ جس طرح اونچی ایڑی والے جوتے پہلی پہل مردوں کے لیے بنائے گئے تھے اسی طرح بٹوے بھی پہلے مردوں کے لیے ہی بنائے گئے تھے مگر خواتین نے جس طرح مردانہ وار ان اشیاء کا استعمال کیا ہے، مردوں نے ان کی ملکیت سے ہاتھ ہی اٹھا لیے ہیں۔ آپ خود بھی مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ کمانے والے پرس کا سائز کیا ہوتا ہے اور خرچ کرنے والے پرس کا سائز کیا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود خواتین جو گلہ ہے کہ یہ مردانہ معاشرہ ہے جہاں ان کے حقوق غصب کیے جاتے ہیں اور ان کو دبا کر رکھا جاتا ہے۔ دور نہ جائیں ایک پرس ہی آپ کو ساری حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے کافی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں