550

تحفظ ختم نبوت بارے عہد صدیقی کی قربانیاں / محمد حسن نعمانی

حافظ ممحمد حسن نعمان

حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبین اور آخری پیغمبر ہونا، آپ کے بعد کسی نبی کا دنیا میں مبعوث نہ ہونا اور ہر مدعی نبوت کا کاذب و کافر ہونا ایسا مسئلہ ھے جس پر صحابہ کرام سے لے کر آج تک ہر دور کے مسلمانوں کا اجماع و اتفاق رہا ہے۔ اسی مضمون کو قرآن مجید میں متعدد بار بیان فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ سورہ احزاب کی آیت نمبر چالیس میں ارشاد ہے:
مَاْ کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِنْ رِّجَالِکُمْ وَلکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّنَ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم باپ نہیں تمہارے مردوں میں سے کسی کے لیکن اللہ کے رسول ہیں اور مُہر ہے سب نبیوں پر “
ختم نبوت کا مسئلہ اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں سو بار اس کا بیان فرمایا ہے۔جب کہ سرور کائنات نے اپنی احادیث میں دوسو دس بار بیان فرمایا ہے۔ ارکانِ اسلام کا تعلق حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کے ساتھ ہے جب کہ ختم نبوت کا تعلق رحمت عالم کی ذات کے ساتھ ہے۔
آپ نماز، روزہ، حج، زکوۃ اور تبلیغ میں سے جس رکن کی بھی بات کریں گے تو کہا جائے گا کہ دین کی خدمت ہے۔ لیکن جب آپ ختم نبوت کا کام کریں گے تو کہا جائے گا کہ براہ راست حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کا فریضہ سرانجام دیا جا رہا ہے۔

ختم نبوت اور صحابہ کرام

مسئلہ ختم نبوت کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر دیے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر آنچ نہیں آنے دی۔ عہد صدیقی میں بہت سے دشمنان اسلام کا مقابلہ کیا گیا جن میں جھوٹے مدعیان نبوت بھی تھے۔
عہد صدیقی کی ابتدا ہی میں ہر طرف نفاق کی تاریکی چھا گئی تھی۔ مخالف ہواؤں کے جھونکے چل رہے تھے۔ ارتداد کی سیاہ گھٹائیں اُمڈی چلی آئی تھیں۔ مسلمان ایسی شب تاریک میں اپنی قلت جماعت و کثرت اعداء سے پریشان ہو رہے تھے۔
قبیلہ عبس و ذبیان اور ان کے ساتھ چند لوگ بنی اسد و بنی کنانہ کے بھی تھے۔ انہوں نے متفقہ طور پر چند آدمیوں کو بطور وفد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں نمازوں میں کمی اور زکوۃ کی معافی کی درخواست دے کر بھیجا حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ “اگر وہ ایک عقال نہ دیں گے تو میں ان سے جہاد کروں گا اور پانچ وقت کی نماز میں سے ایک رکعت کی بھی کمی نہ کی جائے گی”

ہر باغیِ رسول وصلوۃ و زکوۃ سے
پہلا جہاد جس نے کیا آپ ہی تو ہیں

مرتدین کے وفود نے اپنے گروہوں میں جاکر مسلمانوں کی قلیل تعداد سے سب کو آگاہ کیا (کیونکہ لشکر اسامہ کو رومیوں کی طرف روانہ کیا جا چکا تھا)۔ عبس اور ذبیان نے خوشی سے مدینہ منورہ پر حملہ کر دیا لیکن ان کے حملہ آور ہونے سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کے لیے انتظام کر رکھا تھا جس کی وجہ سے انھیں شکست فاش ہوئی۔ اہل یمن بھی دیگر عربوں کی طرح مرتد ہوگئے تھے۔ ان کو سبق سکھانے کے لیے صدیق اکبر نے اہتمام فرمایا اور فتح حاصل کی جب کہ ان کے مقابلہ میں آنے والا قیس بن عبد یغوث شکست سے دوچار ہوا۔
اہل ارتداد سے قتل و قتال کے دوران اہل نجران نے اپنے وفود کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بغرض تجدید عہد روانہ کیا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک جدید عہد نامہ اہل نجران کو لکھ کر دیا اور یہ بھی واضح کر دیا کہ عرب میں دو دین نہیں رہیں گے۔
حضرت ابوبکر صدیق نے مرتدین و منحرفین اسلام کی سرکوبی کی غرض سے گیارہ لشکر تیار کر کے ہر ایک کے لیے ایک ایک نشان اور ایک ایک سردار مقرر کیا اور ان کو حکم دیا کہ ہر قبیلہ سے چند مسلمانوں کو اپنی حفاظت کے لیے چھوڑ کر باقی کو اپنے ہمراہ لے کر اہل رِدت سے مقابلہ و مقاتلہ کرو یہاں تک کہ وہ دوبارہ دائرہ اسلام میں داخل ہو جائیں یا یہ کہ وہ صفحہ ہستی سے مٹ جائیں۔

سیف الله کی آمد
لشکران اسلام کی روانگی کے بعد حضرت خالد بن ولید نے انصار پر ثابت ابن قیس کو اور طے پر عدی بن حاتم کو مقرر کر کے طلیحہ اسدی سے مقابلہ کیا لڑائی کا آغاز فریقین کے لیے خطرناک نظر آرہا تھا عینیہ بن حصن میدان جنگ میں لڑ رہا تھا اور طلیحہ لوگوں کو دھوکہ دینے کی غرض سے چادر اوڑھ کر وحی آنے کا ڈرامہ کر رہا تھا۔ لڑائی کے دوران عینیہ کے دو تین بار وحی کے متعلق پوچھنے پر طلیحہ نے کہا “جبرئیل آئے اور مجھے کہا کہ تیرے لیے وہی ہوگا جو تیری قسمت میں لکھا ہے۔” عینیہ نے یہ سن کر پکارا کہ “اے بنی فزارہ! یہ شخص کذاب ہے۔ میں تو جاتا ہوں تم بھی لڑائی سے لوٹو۔” میدان جنگ مرتدین سے خالی ہوگیا اور فتح مسلمانوں کے ہاتھ آئی۔
جس وقت حضرت ابوبکر صدیق نے گیارہ لشکر مرتدین کی سرکوبی کے لیے روانہ کیے تھے، اس وقت عکرمہ بن ابی جہل کو مسیلمہ سے لڑنے کے لیے یمامہ کی طرف بھیجا۔ ان کے بعد شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کو ان کی مدد کے لیے بھیجا لیکن حضرت عکرمہ نے عجلت کر کے حملہ کر دیا، جس میں انہیں کو شکست ہوئی۔ کیوں کہ حضرت شرحبیل کے آملنے سے پہلے حملہ کر دیا تھا۔
بنی حنیفہ کا اس وقت بہت زور و شور تھا۔ تقریباً چالیس ہزار سپاہی یمامہ کے آس پاس پھیلے ہوئے تھے ۔ حضرت شرحبیل بن حسنہ نے حضرت عکرمہ کی طرح عجلت سے حملہ کر دیا جس میں ان کو ناکامی ہوئی۔ حضرت خالد بن ولید کے بطاح سے فارغ ہونے پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بڑی جمعیت کے ساتھ مسیلمہ کی طرف ان کو روانہ کیا ۔ حضرت خالد نے پہنچ کر حضرت شرحبیل کو عجلت سے حملہ کرنے پر ملامت کی.۔ لڑائی کی نوبت آنے سے پہلے حضرت ابوبکر نے ایک اور گروہ ان کی مدد کے لیے بھیج دیا۔ ادھر بذات خود مسیلمہ کے پاس لشکر کثیر تھا دوسر ا سجاح کے ہمراہی بھی اس کے ساتھ تھے۔
حضرت خالد بن ولید یمامہ آئے تو بنی حنیفہ و مسیلمہ نے تیغ و سنان سے استقبال کیا۔ مسیلمہ کے ہمراہ چالیس ہزار کا لشکر تھا، جبکہ اسلامی لشکر کی تعداد تیرہ ہزار تھی۔ دوران جنگ محکم بن الطفیل کو عبد الرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قتل کر دیا۔ عَلم اسلام حضرت ثابت بن قیس کے ہاتھ میں تھا۔ جب یہ شہید ہوئے تو حضرت زید بن الخطاب نے لے لیا۔ پھر ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے، پھر براء رضی اللہ عنہ نے لےکر مقابلہ کیا۔ اللہ تعالی کی عنایت سے مرتدین کو شکست ہوئی۔ اس جنگ میں بارہ سو صحابہ کرام شہید ہوئے جن میں سات سو حفاظ کرام بھی تھے۔
فتنہ ارتداد ختم کر لینے کے بعد اپنی خلافت کے دوسرے سال یعنی ۱۲ ھجری میں آپ نے اسلامی فوجوں کو عراق کی طرف بھیجا۔ اسلامی فوجیں عراق میں مصروف کار زار تھیں کہ حضرت ابوبکر کے دل میں جہاد شام و روم کا داعیہ پیدا ہوا تو آپ نے صحابہ کرام کو جمع کر کے جہاد کی ترغیب پر مشتمل خطبہ دیا پھر جو فوج جمع تھی، اسے چار حصوں میں تقسیم کر کے روانہ کیا۔
ہر قل بادشاہ روم نے اپنی پوری طاقت جمع کر دی اور جمادی الاولی میں وہ قیامت خیز معرکہ پیش آیا جسے جنگ یرموک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے مسلمانوں کو اس جنگ میں عظیم الشان فتح حاصل ہوئی جبکہ رومیوں کے حواس باختہ ہو گئے. اس فتح کی خوشخبری امیرالمؤمنین کے پاس اس وقت پہنچی جب آپ کی مقدس زندگی کے آخری سانس چل رہے تھے۔
المختصر یہ کہ یرموک، دمشق و شام کے بعض اور شہر عہد صدیقی میں مسلمانوں کے قبضہ میں آ چکے تھے. اسلامی فتوحات کا سلسلہ جاری تھا. عراقی فوجیں ملکِ ایران اور شامی فوجیں ملک روم میں تھیں کہ یکا یک دربار خداوندی سے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لیے خطاب آ گیا کہ:
یَاَیَّتُھَا الْنَّفْسُ الْمُطْمَئِنّۃُ. اِرْجِعِیْ اِلَی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مّرْضِیَّۃً. فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ. وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ. اور آپ خلافت کی باگ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے با اقتدار ہاتھوں میں سپرد کر کے راہی جنت ہوئے. رضی اللہ عنہ واِرضاہ.

خلاصہ کلام
ان ناگفتہ بہ اور خطرناک ترین حالات میں بھی آپ رضی اللہ عنہ نے منکرین ختم نبوت اور جھوٹے مدعیان نبوت سے نہ صرف اعلان جنگ کیا بلکہ انہیں ناکوں چنے بھی چبوائے۔ یہ ان حضرات کے لیے نہایت ہی اعلیٰ سبق ہے جو دن رات مصلحت و حکمت کی گردانیں سناتے نہیں تھکتے اور وقتی طور پر دور حاضر کے کذابین و دجالین یعنی قادیانیوں کے ساتھ اتحاد اور بھائی چارے کا درس دینے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اپنے عمل سے بتا دیا کہ “نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حرمت و ناموس اور تحفظ ختم نبوت کا فریضہ ہر اہم کام سے بھی بڑھ کر اہم ہے۔ بقول شاعر
جہاں بھی جس نے رسول اکرم کی شان و حرمت پہ حرف بولے
وہیں محمد کے جانثاروں نے فرض اپنا نبھا کے رکھا
وفا کی حد ہے یا عشقِ احمد، کہ ہر صحابی نے طے کیا تھا
جہاں پسینہ گرے نبی کا، وہاں پہ سر کو کٹا کے رکھا


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

تحفظ ختم نبوت بارے عہد صدیقی کی قربانیاں / محمد حسن نعمانی“ ایک تبصرہ

  1. ماشا اللہ
    میرے چھوٹے بھائی حافظ محمد حسن نعمانی نے بہت اچھی تحریر لکھی ہے
    اللہ تبارک وتعالی اسے اور اس کی سعی کو اپنے دربار میں قبول و منظور فرمائے
    آمین ثم آمین یا رب العالمین

اپنا تبصرہ بھیجیں