حنظلہ ضمیر منہاس
اسلام ایک معتدل مذہب ہے۔ جس میں نہ سابقہ شریعتوں کی طرح افراط ہے نہ تفریط۔ ہر ذی شعور کا طبعی میلان بھی اعتدال ہی کی جانب ہوتا ہے۔ علمائے دیوبند بھی اسی روش چلے۔ جن کو دیکھ کر ہی ہر ذی فہم ان کے اتباع پر آمادہ ہو جاتا۔ علامہ محمد اقبال بھی ان ہی شخصیات میں سے ہیں جو علمائے دیوبند سے از حد متاثر تھے۔ ان کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان رہتے تھے۔ ان کی توثیق و توقیر کو سرمایہ ء حیات سمجھتے تھے۔ ان سے نسبت و الفت کو ذریعہ ء نجات جانتے تھے۔ جس کا اظہار و اقرار علامہ اکثر فرمادیا کرتے تھے۔
دور جدید کے چند لکھاریوں کو شاید اس بات سے اختلاف ہے کہ علامہ علمائے دیوبند کی تعظیم و توصیف کیوں کرتے ہیں…. اسی لیے وہ خصوصیت کے ساتھ 9 نومبر کو اپنی تحریروں کی بنا ایک ایسے مفروضے پر قائم کرتے ہیں جس سے علامہ صاحب نے رجوع کرلیا تھا۔ وہ رجوع وقت کے بڑے بڑے اخبار وجرائد کی زینت بھی بنا تھا۔ مگر ان کو اس سے کیا سروکار کہ علامہ صاحب نے رجوع کیا تھا یا نہیں۔ ان کو تو من پسند مواد ہاتھ لگ گیاہے، جس کو بنیاد بنا کر وہ ہر سال علماءکو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
نیزحقائق سے بے خبر کچھ لوگ اس سازش کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کے لیے حقیقت حال واضح کرنا ہم ضروی سمجھتے ہیں۔ لہٰذا 9 نومبر کی مناسبت سے یہاں افکار اقبال سے چند جھلکیاں باقاعدہ حوالہ جات کے ساتھ پیش کی جارہی ہیں جن سے علامہ کی علمائے دیوبند سے دلی وابستگی و رفتگی ظاہر ہوتی ہے، جو اس بابت مخالفین کی تمام باتوں کا خود علامہ اقبال کی جانب سے واضح اور دو ٹوک جواب بھی ہے:
1۔”دیوبند ایک ضرورت تھی۔ اس سے مقصود تھا ایک روایت کا تسلسل، وہ روایت جس سے ہماری تعلیم کا رشتہ ماضی سے قائم ہے۔“ (اقبال کے حضور ص 293، مصنف سید نذیر نیازی خادم خاص علامہ محمد اقبال)
2۔” میری رائے ہے کہ دیوبند اور ندوہ کے لوگوں کی عربی علمیت ہماری دوسری یونیورسٹیوں کے گریجویٹ سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔“ (اقبال نامہ حصہ دوم ص223)
3۔” میں آپ (صاحبزادہ آفتاب احمد خان) کی اس تجویز سے پورے طور متفق ہوں کہ دیوبند اور لکھئنو (ندوہ) کے بہترین مواد کو بر سرِکار لانے کی کوئی سبیل نکالی جائے۔“ (اقبال نامہ حصہ دوم ص 217)
4۔”ایک بار کسی نے علامہ مرحوم سے پوچھا کہ کیا دیوبندی کوئی فرقہ ہے؟ کہا: نہیں ہر معقولیت پسند دیندار کا نام دیوبندی ہے۔“ (علمائے دیوبند کا مسلک ص 55)
5۔”مولوی اشرف علی تھانوی سے پوچھیے وہ اس (مثنوی مولاناروم رحمہ اللہ) کی تفسیر کس طرح کرتے ہیں میں اس (مثنوی کی تفسیر کے ) بارے میں انہی کا مقلد ہوں۔“ (مقالات اقبال ص 180)
6۔”میں ان (مولانا سید حسین احمد مد نی رحمہ اللہ) کے احترام میں کسی اور مسلمان سے پیچھے نہیں ہوں۔“ (انوار اقبال ص 167، مولف مرزا بشیر احمد ڈار)
7۔”” میں اس بات کا اعلان ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھ کو مولانا کے اس اعتراف کے بعد کسی قسم کا کوئی حق ان پر اعتراض کرنے کا نہیں رہتا۔ مولانا کی حمیت دینی کے احترام میں، میں ان کے کسی عقیدت مند سے پیچھے نہیں ہوں۔““ (انواراقبال ص 170)
(یہ علامہ صاحب کا وہ رجوع ہے جو انہوں نے حضرت مدنی رحمہ اللہ کے بارے میں ایک غلط فہمی کا شکار ہو کر فارسی میں تین اشعارکہہ دیئے تھے۔ جب حقیقت حال واضح ہوئی تو اپنے اشعار سے رجوع کرلیا۔ منہاس)
8۔ ”اس ( وہٹر ) کے متعلق مولوی سید انور شاہ صاحب(رحمہ اللہ) سے جو دنیا ئے اسلام کے جید ترین محدث وقت میں سے ہیں میری خط و کتابت ہوئی۔“ (انوار اقبال ص 255)
9۔ ”مجدد الف ثانی ، عالمگیراور مولانا اسمعٰیل شہید رحمة اللہ علیہم نے اسلامی سیر ت کے احیاءکی کوشش کی مگر صوفیاءکی کثرت اور صدیوں کی جمع شدہ قوت نے اس گروہ احرار کو کامیاب نہ ہونے دیا۔“ (اقبال نامہ حصہ دوم ص 49)
10۔”مولانا شبلی رحمہ اللہ (م1332ھ/ 1914ء) کے بعد آپ (حضرت مولانا سید سلمان ندوی خلیفہ مجازحضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ) استاذ الکل ہیں۔“ (اقبال نامہ حصہ اول ص 80)
11۔ عریضہ ء اقبال بخدمت مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ
”مخدوم و مکرم حضرت قبلہ مولانا ! اسلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ۔
مجھے ماسٹر عبد اللہ صاحب سے ابھی معلوم ہوا کے آپ انجمن خدام الدین کے جلسے میں تشریف لائے ہیں اور ایک دو روز قیام فرمائیں گے۔ میں اسے اپنی بڑی سعادت تصّور کروں گا۔ اگر آپ کل شا م اپنے دیرینہ مخلص کے ہاں کھانا کھائیں۔ جناب کی وساطت سے حضرت مولوی حبیب الرحمٰن صاحب قبلہ عثمانی حضرت مولوی بشیر احمد صاحب اور جناب مفتی عزیز الرحمٰن صاحب کی خدمت میں یہ ہی التماس ہے۔ مجھے امید ہے کہ جناب اس عریضے کو شرفِ قبولیت بخشیں گے۔ آپ کو قیام گاہ سے لانے کے لیے سواری یہاں سے بھیج دی جائے گی۔“ (منقول از اقبال نامہ حصہ دوم ص 257)
12۔ علامہ صاحب کا مشہور زمانہ شعر
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
یہ شعر علامہ نے مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے بارے میں لاہور کے تعزیتی جلسہ کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا۔ (ماہنامہ دارالعلوم دیوبند/ 1998ء)
مذکورہ بالا حوالہ جات کے بعد یہ بات منکشف ہو جاتی ہے کہ علامہ کا علمائے دیوبند سے کوئی اختلاف نہیں تھا۔ علامہ ہمیشہ علمائے دیوبند کے قدردان رہے۔ علمائے دیوبند کے سرخیل علماء سے علامہ استفادہ بھی کرتے رہے اور ان کی مدح سرائی بھی کرتے رہے۔ یہ سب باتیں اظہر من الشمس ہیں جن کا کوئی بھی ذی شعور آدمی انکار نہیں کر سکتا۔