67

وہ بادشاہ گر نہ رہا/مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کا سانحہ ارتحال/تحریر/علی ہلال

تحریر/علی ہلال

“صدر صاحب” بھی اس دنیا سے رحلت فرماگئے۔ جن لوگوں کا دارالعلوم کراچی سے رشتہ تلمذ رہا ہے وہ اس لفظ کی حقیقی مٹھاس اور اس میں پوشیدہ حقیقی شفقت و ہمدردی کو بخوبی سمجھتے ہیں۔
وہ ہمارے صدر صاحب تھے۔ وہ ووٹ کے صندوق سے نہی بلکہ ایک پر خلوص رشتے سے منتخب ہوکر صدر بنے تھے۔ وہ صرف دل نہیں بلکہ صدر تھے ۔ جہاں دل بستے ہیں۔ ان سے لاکھوں دل جڑے تھے۔ جب صدر نہ رہا تو دل کو سکون وقرار کیسے میسر ہو۔

صدر صاحب بلاشبہہ ایک حقیقی مشفق انسان تھے۔ وہ سمجھ، تدبر، بصیرت، حکمت، دانائی اور ایک باوقار زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھانے والے عظیم راہنما اور مربی تھے۔

وہ بلاشبہ بادشاہوں کا شوق وذوق ودیعت کئے گئے تھے۔ وہ بادشاہ بھی تھے اور بادشاہ گر بھی۔

وہ دور دیہاتوں سے آئے طالب علموں کو تراش کر زمانہ شناس بنانے کا فن جانتے تھے ۔ انسانی تعمیر کے فن سے مالامالا صدر صاحب عمرانی تعمیر میں بھی اعلی اور منفرد ذوق رکھتے تھے۔

ان کے ذوق اور تعمیراتی باریکیوں کی عکاسی کرتی دارالعلوم کراچی کی پرشکوہ عمارتوں میں اندلس کا سحر، قرطبہ کی خوشنمائی، الحمراء کی باریکیاں ، تاج محل کی نزاکت، آیا صوفیا کی یکتائی اور اہرام کی سحر کاریاں جھلک رہی ہیں۔

اس شخص میں گرتے بوندوں، بہتے جھرنوں اور چمکتی کرنوں کو خوشنمائی دینے والا ہنر موجود تھا۔ وہ درختوں کا بھی مزاج جانتے تھے کہ کس درخت کی ٹہنیاں کس قدر لچک رکھتی ہیں۔
صدر صاحب بلاشبہ ایک باذوق اور رحمدل انسان تھے۔

وہ ہمیشہ یاد رکھے جانے والے ایک سدا بہار انسان تھے۔ رب کریم ان کی مغفرت نصیب کرے۔ درجات بلند کرے اور ان کے سنیچے ہوئے باغ کی حفاظت فرمائے۔
آسمان تیری لحد پر شبنم آفشانی کرے
سبزہ ئے نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

کروٹ کروٹ جنت نصیب ہو میرے استاذ!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں