کفر و اسلام کی پہلی جنگ 17 رمضان المبارک 2 ہجری کو بدر کے مقام پر لڑی گئی اور اس بناء پر تاریخ اسلام میں اسے جنگ بدر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بدر کی لڑائی سب سے زیادہ مہتم بالشان لڑائی ہے۔ اس معرکہ میں مقابلہ بہت سخت تھا۔ ایک طرف غرور اور تکبر میں مبتلا اسلحہ اور طاقت سے لیس لشکر کفار تھا جو تعداد میں بھی زیادہ تھا اور ظاہری اسباب اور وسائل بھی بہت زیادہ تھے جبکہ دوسری جانب مسلمانوں کی تعداد انتہائی قلیل یعنی صرف 313 مجاہدین جن میں نوجوان صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے ساتھ ساتھ بزرگ اور بچے بھی شامل تھے۔ مسلمانوں کے پاس صرف ایک یا دو یا تین گھوڑے، چھ نیزے اور آٹھ تلواریں تھیں جبکہ سواری کے لئے 70 اونٹ تھے جبکہ لشکر کفار میں ایک ہزار کے لگ بھگ فوج، سو گھوڑے، سات سو اونٹ اور لڑائی کا کثیر سامان موجود تھا۔ مورخین اس معرکہ کو غزوہ بدرالکبریٰ اور غزوہ بدرالعظمیٰ کے نام سے یاد کرتے ہیں لیکن رب قدوس نے اپنی کتاب مقدس میں اسے یوم الفرقان کے نام سے یاد فرمایا ہے۔ غزوہ بدر کے موقع پر سرکار دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار و مہاجرین کو جمع فرمایا اور دریافت فرمایا کہ کون ہے جو اللہ پاک کی راہ میں اپنی جان کو قربان کرنے کا جذبہ رکھتا ہے تو سب سے پہلے مہاجرین کی طرف حضرت سیدنا صدیق اکبر اور حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی خدمات پیش کیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ہادی برحق! ہمارے جان و مال اور اولاد سب کچھ آپ پر قربان، غزوہ بدر شروع ہونے سے پہلے مشرکین مکہ کے دو سرداروں نے مسلمانوں کے خلاف دعائیں مانگیں جبکہ نصر بن حارث جو یہ سمجھ رہا تھا کہ اس کی جماعت بہتر ہے، اس نے دعا کی تھی کہ اے اللہ دونوں جماعتوں میں سے بہتر کی مدد فرما۔ ان کے برعکس آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رب کائنات کی بارگاہ میں اپنی زندگی کا طویل ترین سجدہ کیا اور دعا فرمائی۔ اے اللہ کل اگر مسلمانوں کا مختصر سا یہ گروہ یہاں ختم ہو گیا تو پھر قیامت تک دنیا میں تیرا نام لینے والا کوئی نہ ہو گا، اور اے اللہ تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اب اس وعدہ کو پورا کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ جنگ بدر میں کفار مکہ کے ستر سردار جہنم واصل ہوئے اور 70 کافر قید ہوئے۔ علاوہ ازیں 14 صحابہ کرام رضی اللہ عنہ شہید ہوئے۔ غزوہ بدر میں مسلمانوں کی فتح سے کفار کی کمر ٹوٹ گئی۔ ان کا غرور خاک میں مل گیا اور اسلام کو تقویت ملی۔

- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل