104

بچوں کا اسلامی ادب(ایک جائزہ)تحریر/محمد فیصل علی (ایم فل اردو)قسط اول

تمہید:

ہر انسان بچپن کے مرحلے سے گزرتا ہے۔بچپن کا مرحلہ انسانی زندگی کا سب سے اہم مرحلہ ہوتا ہے۔یہ مرحلہ ایک انسان کی زندگی کے بننے اور سنورنے کا مرحلہ ہوتا ہے۔جو واقعات،تعلیمات اور عادات بچپن میں ذہن پر نقش ہوجاتی ہیں وہ پوری زندگی اپنے اثرات قائم رکھتی ہیں،اسی لیے تو کہتے ہیں کہ بچپن کی تربیت پچپن تک اپنے اثرات رکھتی ہے اوریہی وجہ ہے کہ بچپن کی تربیت نہایت اہم سمجھی جاتی ہے۔علاوہ ازیں ماہرینِ نفسیات بھی کہہ چکے ہیں کہ انسانی دماغ کا نوے فیصد حصہ بچپن میں ہی تشکیل پاتا ہے،اس لیے اس مرحلے کی درست تربیت پر ہی اگلی زندگی کا دارومدار ہوتا ہے۔

بچپن کے تربیتی عناصر میں سے ایک اہم عنصر بچوں کا ادب بھی ہے۔بچوں کا ادب ایک جامع اصطلاح ہے۔اس کے ذیل میں صرف اسلامی موضوعات پہ مشتمل ادب نہیں آتا بلکہ اس میں تفریحی ، معاشرتی،جاسوسی اوردیگر موضوعات پر مشتمل ادب بھی شامل ہے۔ اسلامی ادب ،تربیتی ادب کے ذیل میں آتا ہے اور اس کا اپنا ایک مقام اورضرورت ہے۔ اگر ہم ڈاکٹر اسد اریب صاحب کی بیان کردہ تعریف کو پڑھیں تو وہ بچوں کا ادب کی تعریف میں بھی انہی دو اہم امور یعنی تفریح و تربیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں:

’’بچوں کا ادب،وہ ادب ہے جو بچوں کی تفریح طبع اور بچوں کی تربیت اخلاق کے لیے لکھا جائے۔‘‘

(اردو میں ادب اطفال:ایک جائزہ۔مرتبہ اکبر رحمانی،ص۵۱)

اس تعریف کے مطابق ہمیں بچوں کا ادب کے دو بنیادی پلڑے نظرآتے ہیں۔ایک پلڑا تفریح کا اور دوسرا تربیت کا۔ ان دونوں میں حسنِ توازن قائم رکھنا لازمی ہے۔بچوں کے لیے صرف تفریحی ادب پیش کرنا بھی درست نہیں ،اسی طرح ان کے لیے صرف اسلامی و اخلاقی موضوعات رقم کرتے رہنا بھی غلط ہے۔اگر کوئی تخلیق کار ایک ہی فن پارے میں تفریح اور تربیت جمع کردیتا ہے تو یہ سب سے مثالی اور اچھی صورت ہے۔

اسلامی موضوعات کی پیش کش میں ایک اور بات کا خیال رکھنا بھی نہایت ضروری ہوتا ہے ۔وہ یہ کہ چوں کہ آپ ادب تخلیق کررہے ہیں تو اس میں ناصحانہ انداز غالب نہ آنے پائے کہ اس سے ادبی فن پارے میں خرابی اور نقص پیداہوجاتا ہے،یہی بات ڈاکٹر محمد عزیز نے یوں لکھی ہے:

’’لیکن اسلامی ادیب کو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ وہ واعظ و ناصح نہیں،ادیب ہے۔اس کا کام منطقی استدلال نہیں بلکہ مرقع کشی ہے۔ادب بھی ایک فنِ لطیف ہے۔موضوع کچھ بھی ہو،ادب میں ہیئت کے حسن سے بے اعتنائی جائز نہیں۔‘”

(اسلامی ادب:ڈاکٹر محمدعزیز،مرتبہ:نجات اللہ صدیقی ،ص:۹)

گویا’’بچوں کا اسلامی ادب‘‘میں ان تینوں لفظوں،یعنی بچوں،اسلامی،ادب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔اول یہ کہ آپ بچوں کے لیے لکھ رہے ہیں،دوم یہ کہ آپ اسلامی موضوع پر لکھ رہے ہیں،سوم یہ کہ آپ ادب لکھ رہے ہیں نہ کہ کوئی علمی ومنطقی مضمون یا وعظ ونصیحت پہ مشتمل خطبہ!اب ہم تفصیل کی طرف جاتے ہیں۔

( کہانیوں میں بچوں کے لیے مذہبی موضوعات کی ادبی دائرے میں پیش کش صرف اردو ادب میں یا پاکستانی ادیبوں کی اختراع نہیں ہے پورا عالم عرب اور اس کا ادب اطفال اس کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے جس کی تفصیل ہم آگے پیش کریں گے)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں