52

ایک حل/تحریر/انس محسن

قیصر و کسریٰ کے محلات کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھنے والی امت مسلمہ آج بدحال، بکھری، ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیوں؟ کرہ ارض کے اہم جنگی، دفاعی، معاشی، اقتصادی بحری و بری راستوں اور سونا چاندی جیسی اہم زمینی معدنیات سے مالا مال خطوں کی مالک ہونے کے باوجود مسلمان حکمران آپس ہی میں دست و گریباں کیوں؟ صداقت و امانت کی مثال سمجھی جانے والی یہ امت کرپشن زدہ اور خزانوں میں خورد و برد میں ملوث کیوں؟ پرسکون اور امن پسند معاشرے کی علمبردار یہ امت ہیجان و پریشانی کا شکار کیوں؟ ان سب کی وجہ ایک ہی ہے اور وجہ وہ عظیم عنصر اور انسانی زندگی کا جوہر ہے جسے ہم نے اپنی زندگیوں سے نکال باہر کیا ہے۔ وہ وہی عنصر جسے چھوڑ کر ہم دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی کا سامنا کر رہے ہیں۔ کبھی اپنے ہی گھر میں چوری کرتے ہیں، کبھی دشمنوں کے سامنے کشکول اٹھائے “فخریہ” پھرتے ہیں حتی کہ حکام بالا سے لیکر کر ایک ادنی شہری تک ہر ایک کسی بھی مالی و معاشرتی بدعنوانی کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ وہ عظیم نعمت جس کے دوست و دشمن، غریب و امیر، بادشاہ و مملوک سب قائل ہیں وہ آپ علیہ السلام کی مثالی زندگی اور اس پر عمل۔
آپ تاریخ کے اوراق اٹھا کر دیکھ لیجیے کہ جب جب مسلمانوں نے اپنی زندگی کو خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مطابق ڈھالا تب تب زمین و آسمان کے خزانے ثمر دار شجر کی پھلوں سے لدی شاخوں کی طرح ان پر جھک گئے، ان کا معاشرہ مثالی معاشرہ بن گیا کہ جہاں ظلم و بربریت کے سائے کا نام و نشان تک نہ تھا، شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پیتے تھے، شہر میں زکوۃ لینے والا نہ ملتا تھا، لیکن جوں جوں حالات بدلے، دنیا کی فانی روشنیوں اور لذتوں میں گم ہوئے، اسوہ حسنہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کی رسی ڈھیلی پڑی، توں توں وہ روبہ زوال ہوتے چلے گئے، ظلم و ستم، اقربا پروری، دنیا کو منتہائے مقصود سمجھنے جیسی گھناونی بیماریوں کا شکار ہوگئے اور دلوں پر سیاہ تالے، دماغوں پر بے فکری اور نظروں پر ایسے پردے پڑے کہ تاریخ نے اپنی نم آنکھوں سے وہ افسوس ناک منظر دیکھا کہ تاتاری شہر بغداد کے باہر اپنے لشکر کی صفوں کو سیدھا کر چکے تھے اور شاہ بغداد ایک طوائف کے رقص سے اپنی آنکھوں کو خیرہ کر رہے تھے، بغداد کے علماء معمولی فروعی مسائل میں اختلافات پر جٹے ہوئے تھے۔ اس کے بعد کے المناک اور درد انگیز لمحات لکھنے سے قلم عاجز ہے۔
آپ اپنی زندگی کا کوئی بھی پہلو اٹھا کر دیکھ لیں یا تو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر عمل پیرا ہوئے ہوں گے یہ اس کے متعلق آپ علیہ السلام کی ہدایت ہوں گی۔ ایک عام شہری سے لے کر اسلامی حکومت کے قائد تک آپ علیہ السلام ہر صورت میں نظر آئیں گے، کبھی کہیں ثالث کے فرائض انجام دے رہے ہیں، کہیں تجارت کے غرض سے محو سفر ہیں، کہیں شادی اور خانگی امور میں مصروف ہیں، کہیں اپنوں کی بے اعتنائی اور غیروں کے جور و ستم کو برداشت کرتے ہوئے تبلیغ دین جیسے اہم اور مشقت طلب فریضہ کو انتہائی جانفشانی سے ادا کر رہے ہیں، کہیں ہجرت، کئی مشورہ، کہیں دوستی، کہیں امام مسجد، کہیں مفتی، کہیں مجاہد، غرض زندگی کا ہر پہلو امت کو کر کے دکھایا صرف اسے کیا ہی نہیں بلکہ اس کے کرنے کا حق بھی ادا کر دیا۔ گویا آپ کی زندگی بنی نوع آدم کے لیے ایک ایسی کھلی کتاب ہے کہ جس کے پڑھنے والا دنیوی و اخروی زندگی سے متعلق ہر مسئلے کا حل باآسانی تلاش کرکے دونوں جہاں کی صلاح وفلاح ، خوش بختی و سعادت مندی حاصل کر سکتا ہے۔ آپ کی زندگی پوری انسانیت کے لیے وہ مشعل راہ ہے جو ہوائے نفس اور خواہشات کی تنگ و تاریک گزر گاہوں میں رہنمائی کرتی ہے۔ جس کی روشنی میں حق و باطل، صدق و کذب روز روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے۔
بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے حال پر رحم کریں۔ دونوں جہاں کے اس عظیم ہادی ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسوؤں کی لاج رکھیں جو ہمیں دن و رات، سفر و حضر کی دعاؤں میں بھی نا بھولا اور ہم اسے اپنی پوری پوری زندگی بھلائے بیٹھے ہیں۔ پیار و محبت کے اس پیکر کی تعلیم کو پس پشت ڈال کر دنیا کی رنگینیوں اور چکا چوند میں اپنے لیے، اپنے خاندان کے لیے، اپنے ملک کے لیے امن و امان اور سکون ڈھونڈ رہے ہیں اور اس کی خاطر غیروں کے بوسیدہ فلسفوں کو اہمیت دے رہے ہیں۔ یاد رکھیں سورج مغرب سے تو نکل سکتا ہے لیکن ایک مسلمان کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کو چھوڑ کر کبھی ذہنی سکون اور قلبی اطمینان نہیں مل سکتا۔
آئندہ آنے والے قمری مہینے ربیع الاول میں گلی گلی کوچہ کوچہ سیرت النبی کانفرنسیں منعقد کی جائیں گی، جلسے جلوس نکالے جائیں گے، بس ایک نیت کر لیں کہ جب بھی کسی پروگرام میں شامل ہوں عمل کی نیت، درد دل، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس امت کے لیے اٹھائی گئی تکالیف اور اس امت سے وابستہ امیدوں کو اپنے دل و دماغ میں ذرا لمحہ کو تازہ کر کے بیٹھیں۔ بے شک یہ امت آپ علیہ السلام کے طریقوں کو چھوڑ کر اس دگرگوں حالت تک پہنچی ہے اور آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے طریقے کو اگر آج اپنی زندگی میں شامل کرلے تو کل کا سورج ان کے لیے پوری دنیا پر فتح و کامرانی کی نوید لے کر طلوع ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں