27

آہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد دلپذیر !/تحریر/مولانا عبد السلام جلالی

حضرت رحمہ اللہ وقت کے عظیم محدث ،مفسر ، مجسم علم و عمل تھے ،ان کی شخصیت اس آخری دور میں اُن گنی چنی ہستیوں میں سے تھی جن کے تصور سے اس پر آشوب دور میں ڈھارس بندھتی تھی ، وہ ان اہل اللّہ میں سے تھے جن کو دنیا کی محبت چھو کر بھی نہیں گزرتی ، جن کالمحہ لمحہ رضائے الٰہی کا پابند ہو کر آخرت کی تیاری میں گزرتا ہے ، جن کی دعاؤں کا سایہ پوری امت کے لیئے رحمت کا باعث ہوتا ہے۔
ان کی زندگی، بچپن سے تا دمِ آخر، ایک پاکیزہ زندگی تھی۔ اتباع شریعت کا ایک مثالی نمونہ تھی۔ وہ اپنے علم و فضل، زہد و تقویٰ ، سادگی اور تواضع میں سلف کی یادگار تھے۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش غالباً 1930کے آس پاس ضلع مانسہرہ کی تحصیل بالاکوٹ کے نواحی گاؤں گوجرا میں ہوئی۔
خاندانی پس منظر :
حضرت رحمہ اللہ جس خانوادے کے چشم وچراغ تھے وہ نسلاً بعد نسل، علم و عمل کا جامع ، ظاہر وباطن اور شریعت و طریقت کی وحدت کا ترجمان تھا۔ آپ رحمہ اللہ اسی جامعیت علوم و کمالاتِ باطنی کے گوہرِ تابندہ تھے ۔ آپ رحمہ اللہ کے دادا ملا ابراہیم رحمہ اللہ کے بھائی ملا عین الدین رحمہ اللہ کا شمار ضلع مانسہرہ کی اکابر علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔ تقسیم سے کافی عرصہ قبل دونوں بھائی اہل وعیال سمیت کشمیر چلے گئے تھے، ملا عین الدین کے بیٹے مولانا عبداللہ فدا وہاں کے ڈسٹرکٹ خطیب رہے اور ان کے ایک بھائی وزیر تعلیم بھی رہے۔ حضرت رحمہ اللہ کے والد ملا حمیداللہ مرحوم اور دادا مرحوم کی قبریں بھی مقبوضہ کشمیر میں ہیں۔
آپ رحمہ اللّٰہ بچپن ہی میں والد کے سایہ سے محروم ہو گئے تھے ، دو سگے بہن بھائی تھے ،والد کے انتقال کے بعد خاندان کے بڑوں نےملا حمیداللہ کی بیوہ کا نکاح ان کے دوسرے بھائی ملا میرولی سے کرادیا ، یوں حضرت رحمہ اللّہ اپنے چچا کی کفالت میں چلے گئے ، ملا میرولی کی اکلوتی بیٹی جو حضرت رحمہ اللہ کی اخیافی بھن اور بندہ راقم کی والدہ ماجدہ ہیں، رحمۃاللہ تعالیٰ علیہا رحمۃ واسعۃ۔
تعلیمی سفر :
ابتدائی تعلیم گھر میں ہی حاصل کی، نوعمری کا زمانہ بھی گھر پر ہی گزرا، سن شعور کو پہنچے تو ایک رات خواب میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی ، یہیں سے قسمت چمکی، بخت کھلے ، کچھ ظاہری اسباب اور بھی بنے ، حصولِ علم کے لیئے رخت سفر باندھا ، متعدد اہل علم سے اکتساب فیض کرتے ہوئے مفتی اعظم ہند حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد رشید حضرت مولانا قاضی محمد اسرائیل بالاکوٹی رحمۃاللہ علیہ کے حلقہ درس میں پہنچے، فنون اور فقہ کی اکثر کتابیں یہاں ہی پڑھیں، تکمیل حضرت شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان رحمۃاللہ علیہ سے تعلیم القرآن راولپنڈی میں کی، دورہِ حدیث جامعہ اشرفیہ لاہور سے کیا اورپنجاب یونیورسٹی لاہور سے فاضل عربی امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔
علاقے کے ایک دینی روحانی بزرگ کا حضرت رحمہ اللہ تعالی سے متعلق خواب اور اس کی عملی تعبیر، جب آپ رحمہ اللہ تعالیٰ زیر تعلیم تھے اور تکمیل کے قریب تھے، علاقے کی ایک متدین معروف روحانی شخصیت نے خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم علاقے میں ایک جانب تشریف لے جا رہے ہیں ،پیچھے مولانا محمد دلپذیر ہیں اور ان کے پیچھے سفید لباس میں ملبوس علماء طلباء کی ایک بڑی جماعت چل رہی ہے۔ یہ خواب درحقیقت مستقبل میں اس علاقے میں دینی تعلیم کے فروغ پانے کی ایک بڑی بشارت اور نوید تھی۔ جس کا سہرا حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے سر جاتا ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ظاہری وجاہت سے بھی خوب نوازا تھا ،علم اور تقوی کے اثرات بھی تھے، کردار کی خوشبو بھی تھی، جس کا نتیجہ تھا کہ جو بھی دیکھتا تو متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا ، اس علاقےکے تقریباً سبھی علماءِ کرام بالواسطہ یا بلاواسطہ حضرت رحمہ اللہ کے حسنات میں شامل ہیں۔
عملی زندگی :
تکمیل کے بعد ابتدائی چند سال صرف درس نظامی کی تدریس کی اور خوب جانفشانی سے کی ،کمال کا حافظہ تھا ، استعداد بھی بہت پختہ تھی ، ایک دن میں پچیس پچیس اسباق بھی پڑھائے ، بعد ازاں مسجد میں امامت خطابت سے بھی منسلک ہوگئے ، اور ساتھ ہی ہائی اسکول میں شعبہ عربی کے استاد بھی مقرر ہو گئے ، ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف اور کتب احادیث کے تراجم کا سلسلہ بھی جاری رہا ، مسجد میں درس قرآن مجید عوام وخواص میں بہت ہی مقبول تھا ۔ اس طرح بیک وقت کئی شعبہ جات میں بھرپور اور متحرک زندگی گزاری۔
2005 سے 2008حضرت رحمہ اللّہ تعالیٰ بطور شیخ الحدیث جامعہ قاسمیہ (ایف سیون فور اسلام آباد) میں استاد تھے ، عمر غالباًاسی سال سے متجاوز تھی ، بخاری شریف اول ، مسلم شریف اول ، تفسیر جلالین شریف ، مشکوٰۃ شریف اول ، مسند امام اعظم ، ہدایہ آخرین ، حضرت کے زیر درس تھیں ، چٹھی کے اوقات میں بعض طلباء کرام حضرت سے ترجمہ تفسیر اور دیگر اسباقِ پڑھتے ، ایک طالب علم شام کے وقت کنز الدقائق پڑھتا رہا ،کبھی آپ نے کسی طالب علم سے یہ نہیں فرمایا کہ دوچار کی اپنے ساتھ جماعت بنا لو تب ہی پڑ ھاؤں گا اکیلے کو نہیں پڑھا سکتا ، علمی استحضار بھی حیرت انگیز تھا ۔
بندہ راقم کی زندگی کے تو وہ سال بہت ہی خوبصورت ویادگار تھے،اسی دوران اسی جامعہ میں صبح کے اوقات میں تدریس کے لیئے جانا ہوتا ، جمعرات کو اسباق مکمل ہونے کے بعد حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ، جامع مسجد سیدنا ابو ذر غفاری( جی ایٹ ٹو) تشریف لاتے ،بندہ ساتھ ہوتا، میری جنت میری والدہ محترمہ اپنے اکلوتے بھائی اور اکلوتے بیٹے کے انتظار میں ہوتیں۔
حضرت رحمہ اللہ کا اس عرصہ میں یہ مستقل معمول رہا ، مدرسے میں رہائش چونکہ سنگل تھی اہل خانہ پھالیہ ضلع منڈی بہاؤ الدین میں تھے۔جمعرات کو تشریف لاتے،جمعہ مسجد ابوذرغفاری میں پڑھا تے ،ہفتے کے روز مدرسہ تشریف لے جاتے ،بارہا ایسے خوبصورت مناظر، مجالس ،اور لمحات دیکھنے کو ملے جب خاندان کی علمی ،روحانی، بزرگ شخصیات حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کیلئے بندہ کے ہاں تشریف لاتےاور اک رونق سی بنی رہتی، میرے محسن مربی پیر طریقت حضرت مولانا محمد قاسم منصور نوراللہ مرقدہ اکثر تشریف لاتے رہتے ،حضرت پیر صاحب کی اہلیہ مرحومہ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللّہ تعالیٰ کی سگی بھانجی تھی ، اسی مناسبت سے حضرت مفتی عبدالرحمن قاسم حفظہ اللہ تعالیٰ ، نانا جی کے عنوان سے حضرت رحمہ اللّہ تعالیٰ کے متعلق لکھتے رہتے ہیں ، عظیم علمی روحانی شخصیت حضرت مولانا سید عالم صاحب نور اللہ مرقدہ المعروف خطیب صاحب ، کراچی بنوری ٹاؤن اپنے فرزند ارجمند حضرت مولانا مفتی رفیق احمد بالاکوٹی صاحب کی طرف آتے جاتے ، یا مفتی جمیل احمد صاحب کی طرف آتے جاتے ، دو چار دن اور کبھی ہفتہ بھر یہاں قیام فرماتے ، اسی طرح بزرگ شخصیت حضرت قاری عزیز الرحمن ہزاروی صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ کا معمول تھا ، حضرت قاری عبدالحفیظ قادری صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ، حضرت مولانا میاں محمد نقشبندی صاحب ، حضرت قاری عبدالباقی صاحب ،دیگر بہت سی شخصیات۔
2008میں حرمین شریفین کے سفر پر حج کے لیے تشریف لے گئے ،حضرت خطیب صاحب مولانا سید عالم صاحب نور اللہ مرقدہ بھی تھے اور بندہ کا حج مبارک کا یہ پہلا سفر تھا ، اس روحانی اور مبارک سفر میں مبارک ماحول میں ان بزرگ ہستیوں کے ساتھ بہت سی خوبصورت یادیں زندگی کا حصہ بنیں ،اللہ کریم کے کرم سے امید ہے کہ آخرت کا زخیرہ اور نجات کا سبب بھی ہوں گی۔
11 اپریل 2025 بمطابق 12 شوال 1446 بروز جمعۃ المبارک سحری کے وقت تقریباً چار بجے کے قریب انتقال ہوا ، چھوٹی بہن ،امِ حسن (جوکہ حضرت رحمہ اللّہ کی بہو ہیں) نے اطلاع دی ۔جمعہ کی نماز کے بعد تین بجے پھالیہ ضلع منڈی بہاؤ الدین کے قدیم قبرستان میں حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کے بڑے بیٹے اور جانشین محترم بھائی مولانا عبداللہ صاحب کی اقتداء میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔ نماز جنازہ میں تمام شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ کثیر تعداد میں شریک ہوئے، علماء مشائخ اور طلباء کرام کی بھی بڑی تعداد موجود تھی ۔
آپ نے بے تحاشہ علمی وادبی کام کیا ،جس میں سے ایک چھوٹی سی جھلک پیش خدمت ہے
تراجم و تصانیف
(1)جمع الفوائد ، اُردو شرح مجمع الزوائد ،(سات جلدیں) حدیث شریف
(2)مسند ابن حبان (دس جلدیں) حدیث شریف ، اردو ترجمہ
(3)مسند ابی داؤد طیالسی، حدیث شریف اردو ترجمہ
(4)مسند حمیدی ، حدیث شریف اردو ترجمہ
(5)جوامع السیر اور کتاب الحج ، اردو ترجمہ
(6)سفر السعادہ ، اردو ترجمہ
(7)الرسالۃ المستطرفہ ،حدیث اور محدثین کا تعارف اردو ترجمہ
(8)نوار نبوۃ ، سیرت النبی کے عنوان پر مختصر اور جامع کتاب
(9)قواعدالعربیہ، علوم صرف ونحو
آخر میں دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت شی رحمۃ اللہ علیہ کے نقش قدم پر چلنے والا بنائے آمین یارب العالمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں