مہتاب عالم پورے جوش و جلال سے اپنی روشنی کو پھیلا رہا تھا ، ستارے بھی نور خدا سے فضا کو جگمگائے ہوئے تھے۔ سخت جاڑے کی ایک دراز شب میں میں نے
“غبار خاطر” کو پرکھا، جھنجھولا اور سمیٹا۔ اس کے بعد اس پر تبصرہ قلم بدست ہوا ۔ادب کے میدان میں اس کتاب کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
سورج کی روشنی بہت اچھی ہے لیکن شپرہ چشم کے لیے عیب اور بدنمائی ہے ۔ کمزور اور ناتواں شخص کے لیے اس کی تمازت غیظ وغضب ہے بعض قلبی اور ذہنی مریضوں نے مولانا کی سیاست کے ساتھ ساتھ ان کی ادبی خدمات کو بھی نظر انداز کر دیا ہے
اس کتاب کے مصنف کا نام”ابوالکلام محی الدین احمد آزاد” تھا والد کا نام”محمد خیر الدین “۔ مولانا ابوالکلام آزاد ہند کے پہلے وزیر تعلیم اور قومی رہنما تھے۔ مولانا 11 نومبر 1888ء میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے والد کا تعلق مدینہ سے تھا سلسلہ نصب”شیخ جمال الدین افغانی “سے ملتا ہے “جو اکبر اعظم “کے عہد میں ہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کی۔ مولانا کا پیشہ مصنف اور زبان اردو تھی۔
مولانا جس طرح سیاست کے میدان میں ایک کامیاب مرد قلندر کی طرح نظر آتے ہیں اس سے کئی گنا بڑھ کر ادب کے میدان میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ مولانا کی 13 سال کی عمر میں الھلال نامی ایک رسالہ چھپ کر آنے لگا تھا ۔ مولانا جب9, اگست 1942ء کو قلعہ احمد نگر کی اسیری میں مقید ہو گئے تھے تو مولانا نے اس کتاب کا آغاز کیا (غبار خاطر ) یہ کتاب دراصل چند خطوط کا مجموعہ ہے یہ خطوط مولانا نے اسیری کے زمانے میں اپنے ایک دوست “صدر یار جنگ” کے عہدے” مولانا حبیب الرحمن شیرانی” کو لکھے تھے بعد میں اسے ایک کتاب کی شکل دے دی گئی ۔یہ وہ کتاب ہے جس سے ہر ادیب کا واسطہ پڑا ہوگا کوئی شاز و نادر ایسے ہوں گے جن کو اس کا علم نہیں ہوگا ، یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں جو کچھ بھی لکھا ہوا ہے وہ سب مولانا کی اپنی ذاتی قلم نویسی ہے۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد انسان اس بات کو سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ مولانا” ابوالکلام ازاد “کیسا بندہ تھا۔ جب کبھی کوئی انسان اعصابی کمزوری یا ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا ہے تو اس کتاب کے مطالعے کے بعد ایسی دنیا میں پہنچ جاتا ہے جہاں کیف و سرور ،جذب و سوز، فرحت اور شگفتگی ہے ۔یہ بات مبالغہ آرائی نہیں بلکہ مبنی برحقیقت ہے۔
“غبار خاطر “ہی میں مولانا نے اپنے نظم وقت اور پابندیٔ اوقات کا ذکر کیا ہے مولانا ایک خط میں لکھتے ہیں۔”چائے اور کھانے کے چار وقت ہیں جن میں مجھے اپنے کمرے سے نکلنا اور کمروں کی قطار کے آخری کمرے میں جانا پڑتا ہے۔چونکہ زندگی کے معمولات میں وقت کی پابندی کا منٹو سے عادی ہو گیا ہوں اس لیے یہاں بھی اوقات کی پابندی کی رسم قائم ہو گئی ہے اور تمام ساتھیوں کو بھی اس میں سات دینا پڑتا ہے۔”
مولانا ابوالکلام آزاد ایک باذوق انسان تھے انہیں جاڑے کے موسم سے بھی بڑا لگاؤ تھا جہاں ساری فطرت خداوندی اس سے اپنے آپ کو بچانے کی غرض سے بہر ضرورت کوشش کرتی ہے وہیں یہ مرد قلندر اپنے کمرے کی کھڑکیاں اور روشن دان کھول دیتا ہے اور خود فرماتے ہیں۔”میں آپ کو بتاؤں میرے تخیل میں عیش زندگی کا سب سے بہتر تصور کیا ہو سکتا ہے جاڑے کا موسم ہو اور جاڑا بھی قریب قریب انجماد کا ، رات کا وقت ہو،آتش دان میں اونچے اونچے شعلے بھڑک رہے ہوں، اور میں کمرے کی ساری مسندیں چھوڑ کر اس کے قریب بیٹھا ہوں پڑھنے یا لکھنے میں مشغول ہو ں، “اور یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ “معلوم نہیں بہشت کے موسم کا کیا حال ہوگا؟ وہاں کی نہروں کا ذکر بہت ہیں سننے میں آیا ہے ڈرتا ہوں کہ کہیں گرمی کا موسم نہ رہتا ہو۔
سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف، سب درست :
لیکن! خدا کرے، وہ تیری جلوہ گاہ ہو۔
آزاد صاحب ہمیشہ خوش و خرم رہنے کی تلقین کیا کرتے تھے وہ فرماتے تھے کہ” لوگ اس کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ زندگی کو بڑے بڑے کاموں میں لائیں گے لیکن نہیں جانتے کہ یہاں سب سے بڑا کام خود زندگی ہے۔یعنی زندگی کو ہنسی خوشی کاٹ دینا یہاں اس سے زیادہ سہل کام کوئی نہ ہوا کہ مر جائیں۔ اور اس سے زیادہ مشکل کام کوئی نہ ہوا کہ زندہ رہے۔اگر آپ نے یہاں ہر حال میں خوش رہنا سیکھ لیا ہے تو یقین کیجیے کہ زندگی کا سب سے بڑا کام سیکھ لیا ہے ۔خود بھی خوش رہے اور دوسروں سے بھی کہیں کہ خوش رہیں۔”
افسردہ دل افسردہ کند انجمنے را
نقطہ نظر
اپنی کم فہمی کے مطابق اب تک جتنی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے ان سب میں تعجب خیز اور مسرت افزا کتاب ہے جو لذت، چاشنی، فرحت و سکون مجھے اس” غبار خاطر” میں ملا وہ شاید کہ مجھے دیگر کتب کے مطالعے سے ملا ہو اس کتاب نے مجھے زندگی گزارنے کا طریقہ و سلیقہ سکھایا ہر وقت خوش و خرم رہنا چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوشی محسوس کرنا،جو چیز میسر ہو اسی پر اللّٰہ کا شکر ادا کرنا،اسی کو اپنی راحت و مسرت کا ذریعہ سمجھنا،اسی کتاب نے مجھے تعلیم و تعلم کا طریقہ بھی سکھلایا،اخلاق و کردار کا طریقہ بھی سکھلایا۔”ابو الکلام آزاد ” صاحب فرماتے ہیں کہ” کھانے پینے اور ساز و سامان کی تکلیفیں ان لوگوں کو پریشان کرتی ہیں جو دماغ کی جگہ جسم سے زندگی گزارنے کے عادی ہوتے ہیں۔جو جسم کی جگہ دماغ سے زندگی بسر کرنے کے عادی ہوتے ہیں انہیں پریشان نہیں کر سکتی۔”
اس دنیا میں بلند مرتبہ اور مال و دولت کی خواہش بے معنی ہے فضول ہے۔یہ خواہشیں حاصل ہوں یا نہ ہوں بہرحال زندگی گزر ہی جاتی ہے۔اس موقع پر غالب کا ایک شعر بے ارادہ ذہن میں آتا ہے:
نقصان نہیں جنوں میں، بلا سے ہو گھر خراب
دو گز زمین کے بدلے بیاباں گرا نہیں،۔
یہ وہ کتاب ہے جو کم ظرف کم عقل لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔اسے دو سے تین مرتبہ پڑھنے کے بعد بندہ یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے کچھ پڑھا۔مجھے بھی یہ کتاب شروع میں مشکل تعبیرات کی وجہ سے ایسے محسوس کرا رہی تھی جیسے میں کسی صحرا نا پرسان میں ہوں،لیکن! چند صفحات کے متعلق کے بعد دھیرے دھیرے سمجھ میں آنا شروع ہوئے پھر الحمدللّٰہ اس سے قرب شناسائی حاصل ہوئی۔