116

فاتحِ قیصر و کسریٰ عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ/تحریر/عابی مکھنوی

وہ ادھیڑ عمر شخص آج بھی گزشتہ چند دنوں کے معمول کے مطابق مدینہ کے مضافات میں ایک رخ پر کسی کی تلاش میں مسلسل گھورے جا رہا تھا ۔
اچانک اُس نے دیکھا کہ دُور سے کوئی نقطعہ شہر کی طرف بڑھتے ہوئے بڑا ہو رہا ہے ۔ بڑھاپے پر دستک دیتی ڈھلتی عمر کے مالک اس انسان کے دِل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگتی ہیں ۔ وہ نقطعہ دراصل ایک اونٹ سوار تھا ۔
جب وہ قریب آیا تو پوچھنے پر پتا چلا کہ وہ عراق کے محاذ قادسیہ سے سپہ سالار سعد بن ابی وقاص کا قاصد ہے اور فتح کی خبر لے کر آیا ہے ۔
اب صورتحال یہ تھی کہ اونٹ پر سوار اجنبی پہلو میں پیدل دوڑتے اجنبی کو محاذ کی خبریں دیتا جا رہا ہے ۔
سوار ایک سوال کا جواب مکمل کرتا ہے تو پیدل دوسرا سوال سامنے رکھ دیتا ۔ اسی حالت میں دونوں شہر میں داخل ہوتے ہیں ۔ پیدل اور سوار کا مکالمہ جاری تھا کہ اچانک سامنے آنے والے ایک شخص نے پیدل شخص کو امیر المؤمنین کے نام سے پکارا ۔
سوار کی گھبراہٹ قابلِ دید تھی ۔ امیر المؤمنین آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں تا کہ مجھ سے یہ گستاخی نہ ہوتی ۔
پیدل اب بھی پیدل ہے اور سوار سواری کر رہا ہے ۔ پیدل سوار سے کہتا ہے کہ کوئی بات نہیں بس تُم اپنا بیان جاری رکھو ۔
سوار بغیر کسی فکر اور پریشانی کے اپنے امیر المومنین کو معرکہ قادسیہ کی مزید تفصیلات بتانے لگتا ہے ۔
سوار کے لیے اجنبی ، مدینہ کے مضافات سے شہر تک پیدل دوڑ کر اپنے لشکر اور لشکریوں کی خبریں لینے والا دراصل فاتحِ قیصر و کسریٰ عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ تھا ۔
ہمارے پیارے امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ
۔۔۔۔
اُٹها لے زر کی رنگینی فقیری کا ہُنر دے دے
عطا کر جان لفظوں کو دعاؤں میں اثر دے دے
فرشتے ہم نے کیا کرنے ہمیں کوئی بشر دے دے
ترستی ہے یہ دنیا یا خُدا کوئی عُمر رض دے دے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں