104

دل کی دنیا/افسانہ نگار/سیدہ فاطمہ طارق

“اللہ اکبر، اللہ اکبر” موذن کی اذانِ مغرب کی آواز ہر طرف گونج رہی تھی اور کاشانہ حیدر میں اپنی ڈائننگ ٹیبل کی کرسی پہ بیٹھی سحر حیدر اپنی پلیٹ سے انصاف کرتی نظر آرہی تھی۔
“ارے بھئی، آج تو رمضان سیریز کی پانچویں قسط آئے گی، بہت ہی کمال کا ڈرامہ چل رہا ہے۔ میں تو چلی اپنا پسندیدہ ڈرامہ دیکھنے۔ ” سحر نے سموسوں اورپکوڑوں سے بھری پلیٹ میں اسپیگھٹی کا اضافہ کیا اور ٹی وی لاونج کی طرف چلتی بنی۔
“سحر! مغرب کی نماز پڑھ کے ڈرامہ دیکھنا۔ ” شہناز بیگم نے اپنی طرف سے دینداری کا ثبوت دیتے ہوئے بیٹی کو نصیحت کی۔ کومل جو شہناز بیگم کی بڑی بیٹی تھی، بس ماں کو دیکھ کر رہ گئی۔ مغرب کی نماز پڑھتے ہی کومل ٹی وی لاونج میں آئی اور اپنے سے دو سال چھوٹی سحر کو سمجھاتے ہوئے بولی:
“سحر! رمضان رحمتوں، برکتوں اور توبہ کا مہینہ ہے، ہم عام دنوں میں کیا کم گناہ کرتے ہیں، جو رمضان میں بھی باز نہ آئیں؟ چلو جلدی سے شاباش اٹھو، تراویح کا وقت ہونے والا ہے۔ دونوں ساتھ تراویح پڑھتے ہیں۔ پتہ نہیں تم نے مغرب کی نماز پڑھی بھی ہے یا۔۔۔۔
“اچھا بس آپی، ہر وقت یہ نصیحتیں مت شروع کردیا کریں۔ ابھی میرا پسندیدہ ڈرامہ آرہا ہے اور میں یہ کسی طور نہیں چھوڑ سکتی، رمضان کی خاطر بھی نہیں، لہذا آپ جائیں اور مجھے میرا ڈرامہ دیکھنے دیں۔” سحر کومل کی بات کاٹتے ہوئے گویا ہوئی اور کومل نے وہاں سے جانے میں ہی عافیت جانی۔
رات کے کھانے کے بعد جب دونوں بہنیں اپنے کمرے میں تھیں۔ کومل قرآن کی تلاوت کررہی تھی۔ سحر نے موبائل فون سے ایک ماڈل کی تصویر نکالی اور کومل کو دکھاتے ہوئے بولی:
” یہ دیکھیں آپی! میں عید پر یہ والا برانڈڈ جینز اور ٹی شرٹ خریدوں گی۔ عید پر اپنی سب دوستوں اور کزنز کے مقابلے میں سب سے مہنگا اور اسٹائلش جوڑا میرا ہوگا۔ “
کومل نے قرآن کی تلاوت مکمل کرنے کے بعد سحر سے کہا: “سحر! اللہ تعالی دکھاوے کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ ہمیں اچھے کپڑے دوسروں کو کمتر ثابت کرنے کےلیے نہیں پہننے چاہیے بلکہ اللہ تعالی کا شکر ادا کرنے کےلیے پہننے چاہیے۔”
“ایک تو آپی آپ اور آپ کی نصیحتیں، مجھے تو لگتا ہے آپ کے اندر کوئی بڈھی روح موجود ہے۔ ” سحر کے اس جواب پر کومل اس کو تاسف سے دیکھنے لگی۔
اگلے دن سحر عید کی خریداری کرنے مال چلی گئی۔ اسٹائلش، برانڈڈ جوڑا لےکر اس کی دل کی مراد پوری ہوگئی تھی۔ ابھی وہ ڈرائیور کے ساتھ گھر پہنچنے ہی والی تھی کہ اس کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ اس کو اور ڈرائیور کو بروقت ہسپتال پہنچایا گیا لیکن ڈرائیور تو جانبر نہ ہوسکا۔ اور سحر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سحر پیروں سے معذور ہوتے ہوتے بچی تھی۔ اللہ نے اسے نئی زندگی دی تھی۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی ایکسیڈنٹ میں متاثر ہوئی تھی۔ وہ ایک مہینے تک وہیل چیئر کے رحم و کرم پر تھی۔ لیکن اللہ کا شکر تھا کہ وہ زندگی بھر کی معذوری سے بچ گئی تھی۔ کبھی شہناز بیگم اس کا صدقہ اتار رہی ہوتیں تو کبھی حیدر صاحب اس پر کوئی وظیفہ پڑھ کر پھونک رہے ہوتے۔ سحر کو تو گویا چپ لگ گئی تھی۔ نہ وہ کسی سے بات کرتی تھی اور نہ پہلے کی طرح ہنستی بولتی تھی۔ روز فزیوتھراپسٹ آکر اس کو ورزش کراتی اور وہ کسی روبوٹ کی طرح تھراپی کرتی رہتی۔
وہ رات کے اس پہر تہجد پڑھ کے گیلری میں آکے بیٹھ گئی۔ ہر طرف ہُوکا عالم تھا، ایک گہری خاموشی۔ وہ اپنے رب کو یاد کرنے کےلیے دل کا سکون پانے کےلیے رات کے اس پہر اٹھی اور اپنے رب سے ڈھیروں باتیں کرنے کے بعد گیلری میں آکر بیٹھ گئی۔ سحر کی اس خاموشی کو کومل نے بہت بار محسوس کیا تھا۔ اس کو گیلری میں اکیلے دیکھ کر وہ سحر کے پاس آگئی اور اس سے بولی: “سحر! میری جان، میری پیاری بہن، تم پہلے کی طرح چہکتی کیوں نہیں؟ مجھے وہ پرانی سحر چاہیے جوہر وقت ہمارے گھر میں کھلکھلاتی رہتی تھی۔ “
“نہیں آپی نہیں، آپ دوبارہ سے اُس سحر کا تذکرہ مت کریں، وہ سحر تو کہیں مرگئی ہے اور اس کو مرجانا ہی بہتر تھا۔ جہنم کی ابدی آگ میں روز جلنے سے بہتر یہ تھا کہ اس پرانی سحر نے اس دنیا کا چھوٹا سا عذاب بھگت کر اپنے آپ کو جہنم کے ابدی عذاب سے بچانے کا عزم کرلیا ہے۔ میں نے موت کو بہت قریب سے دیکھا ہے آپی۔ اور میں اس کرب کو دوبارہ یاد بھی نہیں کرنا چاہتی۔ آپ صحیح کہتی تھیں کہ ہمیں کم از کم رمضان میں تو گناہوں سے دور رہنا چاہیے، اپنی غلطیوں کا جائزہ لیں، اپنا محاسبہ کریں، اپنی اصلاح کرلیں۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں شبِ قدر ہے، اور اس مہینے میں جبرئیل امین تمام بنی نوع انسانی کےلیے قرآن لےکر نازل ہوئے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس مہینے میں اللہ تعالی سے ایسا تعلق بنائیں کہ دنیا کہیں پیچھے رہ جائے اور آخرت ہماری زندگی کا مقصد بن جائے۔ ہم اس دنیا میں رہیں لیکن دل میں اللہ بس جائے۔” یہ کہتے ہوئے سحر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں