168

پہلی سالانہ گلبل کانفرنس برائے ادب اطفال/رپورٹ/محمد معاویہ ظفر

تھیلیسیمیا کے خاتمے کی کوششوں میں اہل قلم کا کردار

٭ادیب معاشرے کا سرمایا ہیں اور قلم کار قلم کی طاقت سے معاشرے کی کسی بھی سمت کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو لکھاری تھیلیسیمیا کی روک تھام کیلئے کام کررہے ہیں وہ قابل فخر ہے۔ اشفاق احمد خان
٭ خواتین کو بھی چاہیے کہ وہ ہر پلیٹ فارم پرقلم کے ذریعے تھیلیسیمیا جیسے حساس موضوع کو اجاگر کریں۔تسنیم جعفری
٭۔ تھیلیسیمیا کا انسداد بہت ضروری ہے جس کے لئے شعور کی ترویج اہل قلم کی ذمہ داری ہے اس ذمہ داری کو ادا کرنے والے قابل تحسین ہے۔ گل نوخیز اختر
٭ میں ان لوگوں کے اس جذبے کی قدر کرتا ہوں جو اپنی مدد آپ کے تحت تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کیلئے اتنا بڑا کام کر رہے ہیں۔ راشد محمود
٭پاکستان میں تھیلیسیمیا کے موضوع پر اہل قلم کی یہ پہلی کانفرنس تھی۔ جسے بھرپور سراہا گیا اور کامیابی نصیب ہوئی۔
٭ ایسے عنوانات پر کام کرنا وقت کی ضرورت بن چکا ہے جو ادیب ابھی تک ان امور پر تخلیقی کام نہیں کر رہے انہیں مفادعامہ کی خاطر اپنے قلم کو اس امر کیلئے وقف کرنا ہوگا۔مظفر محسن
٭ ہر ادیب کو قلم کے ذریعے اس موضوع تھیلیسیمیا کو قلم بندکرنے کی ضرورت ہے۔نذیر انبالوی
٭ہمیں ایسے بچے ڈھونڈنے چاہیے جواس مرض میں مبتلاہیں اور بقدر استطاعت کچھ رقم اکٹھی کرکے تھیلیسیمیاکے بچوں کی امداد میں لگائیں۔ ڈاکٹر فضیلت بانو،ثمینہ طاہر بٹ
٭ام ہانی کو میجر (ر) عبدالقدوس فاروقی کی طرف سے تھیلیسیمیا متاثرہ بچی ہانیہ کے علاج کے لیے نقد 50000دیئے گئے۔
٭حافظ مطفر محسن کی طرف سے مزاح نگاری پر بشریٰ باجوہ کو بھی دس ہزار روپے کا ”حافظ مظفر محسن کیش ایوارڈ“ دیا گیا۔
٭گڈی آپا کیش ایوارڈ ستارہ آمین کومل اور محسن علی تاب کو دیا گیا ساتھ ہی یادگاری ایوراڈ تسنیم جعفری،ڈاکٹر فضیلت بانو اور نمرہ ملک کو دیا گیا۔
زندہ دلان ِ لاہور میں امید روشنی فورم کے زیراہتمام پہلی کانفرنس کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں،کانفرنس کے انعقاد سے ایک دن پہلے علی عمران ممتاز ملتان سے تشریف لاچکے تھے۔سارا دن انتظامات کا جائزہ لیا گیا۔رات کو راقم الحروف کی طرف سے روشنی ٹیم کے لیے عشائیہ دیا گیا۔ اوراگلے دن صبح یعنی3 مارچ 2024 کومرکز جمعیت عربی طلبہ جب پہنچا تھا دیکھا کہ ہال میں کثیر تعدا دمیں اہل قلم پہنچ چکے تھے۔یوں سمجھ لیں اس دن کانفرنس ہال ادیبوں کی کہکشاں سے سج گیا۔ یہ کانفرنس ایک منفرد اور اچھوتے موضوع پر منعقد کی جارہی تھی جس کا عنوان”تھیلیسیمیا کے خاتمے کی کوشش میں اہل قلم کی خدمات“ تھا۔
ادب اطفال میں اس موضوع پر ہونے والی اپنی نوعیت کی یہ پہلی کانفرنس تھی جو تھیلیسیمیا جیسے با مقصد موضوع پر تھی۔امید روشنی فورم پاکستان کے زیر اہتمام پہلی گلبل کانفرنس برائے ادب اطفال بعنوان ”تھیلیسیمیا کے خاتمے کی کوشش میں اہل قلم کی خدمات“جیسے منفرد موضوع پر ادب اطفال کے نامور ادیبوں کو اکٹھا کرنا مشکل ضرور تھا مگر نا ممکن نہیں تھا۔اس کانفرنس کو ملتان کے بجائے لاہور میں منعقد کرنے پر مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود علی عمران ممتاز نے ہمت نہیں ہاری اور بالآخر 3 مارچ 2024 بروز اتوار کو یہ کانفرنس منعقد ہونا قرار پائی۔
گلبل کانفرنس کے دو سیشن رکھے گئے تھے۔ پہلا مردوں کا اور دوسرا خواتین کاسیشن تھا۔
پہلے سیشن کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔قاری احمد ہاشمی نے اپنی خوبصورت آواز میں تلاوت کلام پاک کی۔اس کے بعد نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم پڑھنے کی سعادت محمد نعیم رضوی نے حاصل کی۔ نظامت کے فرائض الطاف حسین سومرو عرف سومی بابو جو وائس آور آرٹسٹ بھی ہے نے ادا کئے۔انکی نظامت بڑی پُرلطف اور مسحورکن تھی ان کا انداز بیاں دھیما اور پروقار تھا۔
پہلے سیشن کی صدارت ممتاز دانشور اور بچوں کے سینئر ادیب اشفاق احمد خان نے کی۔انہوں نے اپنی صدارتی اظہار خیال میں کہا ادیب معاشرے کا سرمایا ہیں اور قلم کار قلم کی طاقت سے معاشرے کی کسی بھی سمت کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو لکھاری تھیلیسیمیا کی روک تھام کیلئے کام کررہے ہیں وہ قابل فخر ہے۔مہمان خصوصی معروف کالم نگار جناب گل نوخیز اختر نے اپنے اظہار خیال میں بچوں کے ادب اور ادیبوں کی حوصلہ افزائی کی جو تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا بچوں کیلئے کام کررہے ہیں اور مزید یہ کہا کہ یہ بڑی خوش آئند بات ہے ادیب قلم کے ذریعے اس میدان میں آچکے ہیں۔ تھیلیسیمیا کا انسداد بہت ضروری ہے جس کے لئے شعور کی ترویج اہل قلم کی ذمہ داری ہے اس ذمہ داری کو ادا کرنے والے قابل تحسین ہے۔ مشہورومعروف ادکارو ادیب راشد محمود صاحب نے تھیلیسیمیا کے بچوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں ان لوگوں کے اس جذبے کی قدر کرتا ہوں جو اپنی مدد آپ کے تحت تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کیلئے اتنا بڑا کام کر رہے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہا کہ قلم کے ذریعے اس موضوع پر لکھناکسی جہاد سے کم نہیں راشد محمود صاحب نے مزید کہا کہ تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کیلئے گلبل میگزین جیسے اور رسائل کو بھی آگے بڑھ کر اس میں حصہ ڈالنا چاہیے۔ معروف مزاح نگار حافظ مظفر محسن نے اپنے اظہار خیال میں کہاکہ ایسے عنوانات پر کام کرنا وقت کی ضرورت بن چکا ہے جو ادیب ابھی تک ان امور پر تخلیقی کام نہیں کر رہے انہیں مفادعامہ کی خاطر اپنے قلم کو اس امر کیلئے وقف کرنا ہوگا اور ہم اس کانفرنس کے توسط سے اس عزم کا اعلان کرتے ہیں کہ اس حوالے سے تخلیقی کام کیا جائے گا۔ بچوں کے معروف کہانی کارنذیرابنالوی نے تھلیسیمیاکو ایک اہم اور ضروری موضوع قراردیا اور کہا کہ ہر ادیب کو قلم کے ذریعے اس موضوع کو قلم بندکرنے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ تھیلیسیمیا کے جو مریض ہیں وہ تو ایک کرب سے گزرتے ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے گھر والے اس سے زیادہ مشکل کا شکار ہوتے ہیں۔گلبل کا یہ عظیم پودا جناب غلام ذادہ نعمان صابری، علی عمران ممتاز،عبدالصمد مظفر نے لگایایہ احباب مبارکباد کے مستحق ہیں۔غلام زادہ نعمان صابری نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا میں نے اپنی قلم کمائی تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کیلئے وقف کی ہوئی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں کچھ نہ کچھ رقم اس عظیم کام کے لیے مختص کرنی چاہئے میں اپنی ادیب براداری سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ اس طرف دھیان دے گی ہر ادیب ہر ماہ تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کی خدمت کیلئے ایک گلبل رسالہ ضرورخریدے۔کانفرنس کے منتظمین عبدالصمد مظفر اور صدارتی ایوارڈ یافتہ ادیب علی عمران ممتا زکاکہنا تھا کہ ہم نے فلاح انسانیت کے جذبے سے سرشار ہوکر انسداد تھیلسمیا کے لئے اپنے تئیں کام کرنے کا عزم کیا ہے جس میں تخلیقی کام، آگاہی مہم، ادویات کی فراہمی، معاونت ودیگر امور شامل ہیں جسے ہم بہتر اور موثر انداز میں جاری رکھیں گے یہ ایک ایسا عمل ہے جو کہ رکنا نہیں چاہئے۔پہلے سیشن میں اظہر عباس،نوید مرزا،بدر سعید،اسعد نقوی،مختار حسین سومرو،محمد ندیم اختر،ڈاکٹر طارق ریاض خان،کاوش صدیقی نے بھی خطاب کیا اور اہل قلم سے کہا کہ وہ تھیلیسیمیا کے سدباب کے لیے اپنی کہانیوں کے زریعے عوام الناس کو آگاہی دیں۔
دوسرے سیشن کی نظامت کے فرائض نمرہ ملک اورقاری محمد عبداللہ نے سرانجام دیئے۔نمرہ ملک نے کی جو بیک وقت چار زبانوں میں شاعری پر عبور رکھتی ہے اس سیشن کی صدارت معروف مصنفہ اور سائنس فکشن رائٹر محترمہ تسنیم جعفری صاحبہ نے کی تسنیم جعفری صاحبہ نے خواتین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ خواتین کو بھی چاہیے کہ وہ ہر پلیٹ فارم پرقلم کے ذریعے تھیلیسیمیا جیسے حساس موضوع کو اجاگر کریں۔ معروف مصنفہ ڈاکٹر فضیلت بانو،ثمینہ طاہر بٹ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے اردگرد ایسے بچے ڈھونڈنے چاہیے جواس مرض میں مبتلاہیں اوران کی مدد کرنی چاہئے اور بقدر استطاعت کچھ رقم اکٹھی کرکے تھیلیسیمیاکے بچوں کی امداد میں لگائیں جس نے ایک جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچالیا ہے۔خلق انسانیت کی چیئرمین مریم راشد اور روزینہ فیصل بٹ نے بھی اپنی گفتگو کے ذریعے سامعین کے سامنے یہ بات رکھی کہ میں خراج تحسین پیش کرتی ہوں اس ادارے کو جو ایک اچھے لیول پہ کام کررہے ہیں میں سب سے گزارش کرتی ہوں کہ گلبل کے اس پیلٹ فارم کے ذریعے آپ سب بھی آگے بڑھیں اور یہ بڑے اعزاز کی بات ہے اور ان کی ڈونرز تک پہنچانے میں (ہیلپ)کریں۔اس سیشن کی مہمانِ خصوصی ڈاکٹر فضیلت بانو، ثمینہ طاہر بٹ،تسلیم بروہی اورنگہت اکرم تھیں۔
ام ہانینے اپنی چار سالہ بیٹی کی داستان سنائی کہ کیسے وہ تھیلیسیمیا کا مقابلہ کررہی ہے۔میجر(ر)عبدالقدوس فاروقی صاحب نے دوسرے سیشن کے دوران تھیلیسیمیاپر لکھنے والے بچوں کے ادیبوں کیلئے کچھ فنڈز کا اعلان کیا جس پر شرکانے تالیاں بجا کر میجر صاحب کو داد دی۔گڈی آپا کیش ایوارڈ ستارہ آمین کومل اور محسن علی تاب کو دیا گیا ساتھ ہی یادگاری ایوراڈ تسنیم جعفری،ڈاکٹر فضیلت بانو اور نمرہ ملک کو دیا گیا۔یہ ایوارڈ میجر (ر) عبدالقدوس کی طرف سے ان کی اہلیہ مرحومہ تحسین اختر (گڈی آپا) کے نام سے دیئے گئے۔ام ہانی کو میجر (ر) عبدالقدوس فاروقی کی طرف سے تھیلیسیمیا متاثرہ بچی ہانیہ کے علاج کے لیے نقد 50000دیئے گئے۔حافظ مطفر محسن کی طرف سے مزاح نگاری پر بشریٰ باجوہ کو بھی دس ہزار روپے کا ”حافظ مظفر محسن کیش ایوارڈ“ دیا گیا۔
مسز فیض بخش ایوارڈ2024صوفی اعجاز احمدکی طرف سے انجینئر اعجاز احمد UAE، غفران محمود،اعجاز اکبراور حاجی لطیف کھوکھر کو کو دیئے گئے۔
گلبل ایوارڈ2024فاکہہ قمر،شاہد فاروق پھلور،عذیر رفیق،اشفاق احمد خان،حافظ مظفرمحسن،گل نوخیزاختراورالطاف حسین سومرو(سومی بابو)کو دیئے گئے۔
کرن کرن روشنی ایوارڈ2024راشد محمود،میجر(ر)عبدالقدوس فاروقی،منصور بٹ،محمد فہیم عالمحافظ معاویہ ظفر،صوفی اعجازاحمد،جنید احمد صدیقی (بہترین کتاب”کامیابی کی سیڑھی“)صفیہ ہارون (بہترین کتاب ”پریوں کاگھر“)کو دیئے گئے۔
پاسبان قلم ایوارڈ2024ادبی تنظم پاسبان بزم قلم کی طرف سے غلام زادہ نعمان صابری(سرپرست اعلی گلبل)،عبدالصمد مظفر(ایڈیٹر گلبل)،مختار حسین سومرو(سرپرست گلبل)علی عمران ممتاز(چیف ایڈیٹر گلبل و کرن کرن روشنی)اور امان اللہ نیئرشوکت کو دیئے گئے۔
گلبل و روشنی ٹیم میں شہزاداسلم راجہ،فرحان اشرف،غلام عباس بھٹی، محمدتوصیف ملک،امجدنذیر،محمدنادرکھوکھر،عتیق نائچ،عبدالقادر فیاض،غلام مصطفی شاکرکو ادب دوست ایوارڈ 2024 سے نوازا گیا۔اظہار خیال کرنے والے قیل قلم و دور دراز سے آنے والے شرکاء کو کتابوں کا تحفہ اور اسناد دی گئیں۔
کانفرنس میں ملک بھر سے تشریف لانے والے ادیبوں میں (لاہور سے) محمد نوید مرزا،میاں ساجد علی،سید عاذب خاقان،شگفتہ ناہید کوثر،مدثر باجوہ، حافظ احمد ہاشمی،محمد علی حسن،ذوالقرنین حیدر،عبدالصمد مظفر (پھول بھائی) غلام زادہ نعمان صابری، سہیل قیصر ہاشمی،اشرف سہیل،امان اللہ نیر شوکت،الطاف حسین ملک،محمد نادر کھوکھر،سید غضنفر علی،شہزاد اسلم راجہ،شفقت منصوری، اداکار راشد محمود،اشفاق احمد خان،ریاض حسن خان،سید اسعد نقوی،سید بدر سعید،اویس حنیف منہاس، کاوش صدیقی،نثار احمد خان،محمد نعیم امین،محمد معاذ،عثمان یسین،ام ہانی،حافظ مظفر محسن،روزینہ زرش بٹ،فیصل ظفر،شہباز اکبر الفت،اظہر اقبال مغل،خرم منیر،ایمان فاطمہ،افتخار خان مشعل،محمد معاویہ ظفر،ڈاکٹر طارق ریاض خان،نگہت اکرم،ڈاکٹر فضیلت بانو،تسنیم جعفری،حبہ رسول،امجد نذیر،عمارہ کنول،حفضہ اقبال،مریم راشد،طاہر ادریس،غلام زہرہ،تہذیب۔(ملتان سے) مختار حسین سومرو،قاری محمد عبداللہ، علی عمران ممتاز، عبدالقادر فیاض،جڑانوالہ سے روبینہ اصغر،ساہیوال سے محسن علی طاب اور الطاف حسین سومرو،شکرگڑھ سے محمد توصیف ملک،ہارون آباد سے محمد فرحان اشرف،شجاع آباد سے غلام عباس بھٹی،پتوکی سے صفیہ ہارون اور کہکشاں اسلم، واربرٹن سٹی سے عابد قادری اور ایم نعیم رضوی،اسلام آباد سے حلیمہ طارق،نوشہرہ کے پی کے سے محمد جنید صدیقی، چوک اعظم لیہ سے محمد ندیم اختر، ٹوبہ ٹیک سنگھ سے محمد شاہد فاروق پھلور،محمد عمر فاروق، محمد طلحہ اسحاق، کوئٹہ/لاہور سے اظہر عباس،فیصل آباد سے مدثر سبحانی، سیالکوٹ سے اسامہ زاہروی اور فاکہہ قمر،قصور سے سعید بھٹہ اور اکبر علی شاہد، گوجرانوالہ سے محمد اسامہ قاسم،روجھان راجن پورسندھ سے دانش مزاری،رانا روشن علی،ضامن حسین بکھ، جیکب آباد سندھ سے تسلیم بروہی، تلہ گنگ سے نمرہ ملک، پیر محل سے ستارہ امین کومل شامل تھیں۔پاکستان میں تھیلیسیمیا کے موضوع پر اہل قلم کی یہ پہلی کانفرنس تھی۔ جسے بھرپور سراہا گیا اور کامیابی نصیب ہوئی۔
٭٭٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں