Humor/I have to go to Sajan's house/ Written by/ Anila Afzal Advocate 9

طنزو مزاح/شادی کے دعوت نامے/تحریر/انیلہ افضال ایڈووکیٹ

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا سکرول کرتے ہوئے ایک ایسا دعوت نامہ نظروں سے گزرا، جس نے ہوش اڑا دیئے۔ مصیبت بانو کی شادی آفت خان سے ہو رہی تھی اور ہم یہ سوچ رہے تھے کہ اس شادی میں خانہ ابادی ہو گی یا خانہ بربادی؛ مزید یہ کہ اس رشتے میں کون کس پر بھاری پڑے گا۔ لیکن عمومی مشاہدہ بتاتا ہے کہ سانپ اگر سانپ کو ڈسے تو کسی کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اب مصیبت آفت کو پڑے یا آفت مصیبت کو، کی فرق پیندا اے یار!!!

انسان ایک معاشرتی حیوان کہلاتا ہے۔ معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے، گویا ایک معاشرہ بنانے کے لئے افراد کو ایک دوسرے سے ملنا پڑتا ہے، اور بنا بلائے کسی سے ملنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس اہم کام کی انجام دہی کے لئے انسانوں نے ایک اہم ایجاد کی اور اسے ” دعوت نامہ“ کا نام دیا۔

دعوت نامہ کسی موقع کی مناسبت سے تیار کیا جاتا ہے ۔ مثلاً اسکول کا کوئی پروگرام ، گھریلو پروگرام ، سالگرہ ، شادی ، کانفرنس ، سیمینار اور مشاعرہ وغیرہ ۔ دعوت نامے میں پروگرام میں شرکت کے لیے کسی کو مدعو کیا جاتا ہے۔ آپ نے اپنی زندگی میں بہت سے دعوت نامے دیکھے ہوں گے، لیکن دعوت نامے کی سب سے عمومی شکل شادی کا دعوت نامہ ہوتا ہے۔
شادی معاشرت کا ایک اہم حصہ ہے۔ مرد کی شادی نہ ہو تو اس پر انگلیاں اٹھتی ہیں اور لڑکی کی شادی نہ ہو تو اس پر بری نگاہیں۔ لڑکی شادی سے پہلے گھبراتی ہے اور لڑکا شادی کے بعد ساری زندگی گھبرایا ہوا سا رہتا ہے۔ انسان جوان ہوجائے تو اپنی شادی کا سوچتا ہے اور بوڑھا ہوجائے تو اپنی اولاد کی شادی کا۔ درحقیقت وہ اپنی غلطی کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔ شادی اپنی پسند کی ہو یا والدین کی پسند کی، انجام ایک ہی ہوتا ہے جھگڑے اور بچے۔

شادی کا ایک اہم حصہ شادی کارڈز ہیں۔ ان کارڈز کی عبارت ایک ہی جیسی ہوتی ہے سوائے نام، مقام اور تاریخ کی تبدیلی کے۔ پھر بھی ہم ہر نئے کارڈ کو بصد شوق بار بار پڑھتے اور تبصرے کرتے ہیں۔ دلہا دلہن کا نام کچھ بھی ہو انھیں شادی کے دعوت نامے پر نور چشمی اور نور چشمہ اور سلمہ اور سلمہا کے القابات سے ضرور نوازا جاتا ہے۔ پورے خاندان کی خواہش ہوتی ہے کہ شادی کارڈ پر ان کا نام بھی چھپے اور یہیں سے شادی کے برے اثرات سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ آج کل یہ کارڈز اتنے مہنگے ہوگئے ہیں کہ پرانے زمانے میں اتنے پیسوں میں پوری شادی ہوجایا کرتی تھی۔ عموماً شادی کے دعوت نامے ایک سے ہی ہوتے ہیں، لیکن کبھی کبھی کچھ مختلف لوگ مختلف قسم کے دعوت نامے تخلیق کرتے ہیں۔

پاکستان میں یوں تو وقت کے ساتھ ساتھ کئی روایات دم توڑتی جارہی ہیں جن میں سے ایک روایت کارڈز کی ہے، ماضی میں لوگ شادی کارڈز پر خوبصورت تحاریر لکھتے تھے اور بعض لوگوں کے شادی کے کارڈز پر ایسی تحاریر ہوتی ہیں جنہیں پڑھ کر بے ساختہ ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔

ایک صاحب اپنے بیٹے کی شادی کے دعوت نامے میں لکھتے ہیں، ” ہمارے برخوردار خیر سے جوان ہو گئے ہیں اور شادی کی کلہاڑی اپنے پیروں پر مارنا چاہتے ہیں۔ کلہاڑی ہمیں ہمارے عزیز دوست کے گھر سے مل گئی ہے۔ اس خونی تقریب میں شرکت فرما کر ہماری عزت افزائی کریں۔“ کیا ہی خوب صورت تشریح کی گئی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ دلہا اور دلہن کی اہمیت صرف چند روزہ ہوتی ہے اس کے بعد انھیں باسی پھلوں اور سبزیوں کی طرح کوئی منہ نہیں لگاتا بلکہ انھیں آپس میں منہ ماری کرنے کے لئے اکیلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ شادی ایک دن کی خوشی کا نام ہے، اگلے دن سے برا دن شروع ہوتے ہی باراتیوں میں سے ایک بھی مدد کو نہیں آتا۔

شادی کو لوگ شادی خانہ آبادی بھی کہتے ہیں۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو۔ لیکن شادی والے دن کو تو "خانہ آبادی“ کی بجائے "کھانا آبادی“ کہنا چاہیے۔ ایک  کامیاب  اور اچھی شادی وہی کہلاتی ہے جس میں زیادہ سے زیادہ لوگ کھانا کھا سکیں۔ کھانا جتنا مزیدار اور ڈشیں جتنی زیادہ ہوں، دولہا دلہن کی اتنی ہی زیادہ تعریفیں ہوتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اگلے ہی دن سے سارے شریکین منکرین بن کر نمک حرامی پر اتر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں اچھا کھانا لوگ  عموماً شادی پر ہی کھاتے ہیں۔ کھانے کی لذت جتنی زیادہ ہو شادی اتنی زیادہ دیر تک یاد رکھی جاتی ہے۔ کسی شادی کارڈ میں لکھا تھا، " شادی میں ضرور آئیے گا، کیونکہ اگر آپ نہیں آئیں گے تو کھانے میں برائی کون نکالے گا۔“

کچھ لوگ شادی کارڈ پر پورے خاندان کا نام لکھ کر رشتہ داروں کی ناراضی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں؛ جبکہ کچھ لوگ چار قدم آگے کی سوچتے ہیں اور زندوں کی بجائے ” متمنی شرکت“ میں برکت کے خیال سے بڑے بزرگوں کا نام لکھتے ہیں، بس نام کے سامنے بریکٹ میں اور کبھی کبھی بنا بریکٹ کے ” مرحوم“ لکھا ہوتا ہے۔ اب ایسی شادی میں کون جانا چاہے گا جس کے میزبان مرحومین ہوں۔

اس رمضان سے پہلے والے شادی سیزن میں سوشل میڈیا پر شادی کا ایک دعوت نامہ کافی مقبول ہوا، جوکہ خاصا دلچسپ تھا۔ اگر شادی کے اس دعوت نامے پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ دعوت دینے والے نے شادی اور شادی کی دعوت سے متعلق مروجہ تصورات کو ہنسی مذاق میں بیان کیا ہے، جیسے کہ شادی میں آئے مہمانوں کو اکثر شادی کے کھانے اور انتظامات سے متعلق شکایات رہتی ہیں یا پھر شادی کے دعوت نامے پر دولہا دلہن کی تعلیمی قابلیت کو فخریہ انداز میں نام کے ساتھ لکھا جاتا ہے، جس کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا سکرول کرتے ہوئے ایک ایسا دعوت نامہ نظروں سے گزرا، جس نے ہوش اڑا دیئے۔ مصیبت بانو کی شادی آفت خان سے ہو رہی تھی اور ہم یہ سوچ رہے تھے کہ اس شادی میں خانہ ابادی ہو گی یا خانہ بربادی؛ مزید یہ کہ اس رشتے میں کون کس پر بھاری پڑے گا۔ لیکن عمومی مشاہدہ بتاتا ہے کہ سانپ اگر سانپ کو ڈسے تو کسی کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اب مصیبت آفت کو پڑے یا آفت مصیبت کو، کی فرق پیندا اے یار!!!

دلچسپ بات یہ ہے کہ لوگ شادی کو چاہے ایک مذاق کے طور پر لیتے ہوں لیکن شادی کارڈ کو ہمیشہ سنجیدگی سے ہی لیا جاتا ہے؛ ورنہ صرف ایک متمنی شرکت کی لسٹ میں نام شامل نہ کرنے پر ” برسوں کے یارانے” نہ جاتے۔ جو بھی ہوں آپ کی شادی ہوئی یا نہیں؟ اگر ہو گئی تو آپ کا شادی کارڈ کیسا تھا؟ اور اگر نہیں ہوئی تو آپ کس طرح کا کارڈ چھپوانے کا ارادہ رکھتے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں