163

خلیل جبران، الفاظ کا جادوگر/تحریر/عبدالجبار سلہری

زندگی کچھ مسافروں کو خاص مقصد کے تحت تخلیق کرتی ہے۔ یہ لوگ صدیوں کے اندھیروں میں چراغ کی مانند ہوتے ہیں، جو آنے والی نسلوں کے لیے راہنمائی کی روشنی چھوڑ جاتے ہیں۔ ان کا وجود صرف اپنے عہد تک محدود نہیں رہتا، بلکہ وہ ہر زمانے میں سانس لیتے، ہر دل میں دھڑکتے اور ہر ذہن میں روشنی کے چراغ جلاتے ہیں۔ انہی چراغوں میں سے ایک نام خلیل جبران تھا۔ وہ شخص جس نے لفظوں کو روشنی دی، خیالات کو پرواز بخشی اور روحوں کو سکون دیا۔ وہ شاعر، فلسفی اور مصور تھا، لیکن سب سے بڑھ کر، وہ ایک ایسی خوابیدہ روح تھی جو محبت، فطرت اور انسانیت کی گہرائیوں میں اترتی رہی۔

اس کی تحریریں زندگی کے گہرے رازوں کو آشکار کرتی ہیں، اس کی مصوری روح کے پوشیدہ گوشوں کو اجالتی ہے، اور اس کا فلسفہ انسانیت کو نئی روشنی عطا کرتا ہے۔ وہ ایسا مفکر تھا جس کے خیالات مشرق کی روحانی دانش سے نمو پاتے، مغرب کے فکری انقلاب سے گزرتے اور پوری دنیا میں ایک آفاقی پیغام بن کر پھیل جاتے۔

خلیل جبران 6 جنوری 1883 کو لبنان کے گاؤں بشاری میں پیدا ہوا—وہی سرزمین جہاں قدیم دیودار کے درخت صدیوں سے آسمان کو چھونے کی جستجو میں کھڑے ہیں۔ انہی درختوں کی طرح، جبران کا تخیل بھی بلندیوں کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ مگر اس کے بچپن کے دن آسان نہ تھے۔ اس کا والد سخت مزاج اور غیر ذمے دار تھا، جو مالی مشکلات اور قانونی معاملات میں الجھا رہتا۔ جبران کی والدہ، کاملہ رحمت، ایک حوصلہ مند خاتون تھیں، جنہوں نے زندگی کی سختیوں کے باوجود اپنے بچوں کے لیے قربانیاں دیں۔

خاندان کی مالی بدحالی کے باعث، جبران کی والدہ 1895 میں اپنے بچوں کے ساتھ امریکہ ہجرت کر گئیں اور بوسٹن میں سکونت اختیار کی۔ یہی وہ مقام تھا جہاں خلیل جبران نے اپنی فنی اور فکری زندگی کا آغاز کیا۔ وہ ابتدا میں ایک مصور کے طور پر ابھرا، مگر جلد ہی اس کی تحریریں اسے ایک عظیم ادبی شخصیت کے طور پر متعارف کرانے لگیں۔

خلیل جبران کی پہلی تصنیف “الموسیقی” 1905 میں عربی زبان میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد اس نے کئی عربی اور انگریزی کتابیں تحریر کیں، مگر 1923 میں شائع ہونے والی “پیغمبر” نے اسے عالمی شہرت عطا کی۔ یہ کتاب ایک فلسفیانہ مسافر کی کہانی بیان کرتی ہے، جو زندگی، محبت، غم، خوشی، مذہب، آزادی اور موت پر ایسے خیالات پیش کرتا ہے جو ہر دور کے انسان کے لیے راہنمائی کا باعث بن سکتے ہیں۔

“پیغمبر” محض ایک کتاب نہیں، بلکہ زندگی کی ایک ایسی دستاویز ہے جو ہر انسان کے دل سے قریب محسوس ہوتی ہے۔ اس کے الفاظ صرف الفاظ نہیں، بلکہ خیالات کے وہ دیے ہیں جو روشنی بکھیرتے ہیں۔ ہر جملہ ایک حقیقت کی کھڑکی کھولتا ہے، ہر صفحہ ایک نیا جہان دکھاتا ہے۔

جبران کی تحریریں الفاظ سے زیادہ، جذبات کی تصویر ہیں۔ اس کے کلام میں ایک عجیب سحر ہے، جو قاری کے دل کو مسخر کر لیتا ہے۔ وہ ایسا ادیب تھا جس نے مشرق و مغرب کے فکری دریچوں کو یکجا کیا۔ اس کا فلسفہ محبت پر استوار تھا، جہاں نفرت، تعصب اور فاصلوں کی کوئی گنجائش نہ تھی۔

اس کی ایک تحریر، جو آج بھی ایک الہام کی صورت ہمارے دلوں میں دھڑکتی ہے:
“تم آزاد ہو، مگر جب اپنے خیالات کو زنجیروں میں جکڑ دیتے ہو تو غلامی کا آغاز ہوتا ہے۔”

یہ الفاظ آج بھی ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں: کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ کیا ہمارے خیالات، ہمارے خواب اور ہماری محبتیں واقعی ہر قید سے آزاد ہیں؟

محبت کے بارے میں وہ لکھتا ہے:
“محبت تمہیں تاج پہناتی ہے تو کبھی تمہیں صلیب پر چڑھا دیتی ہے۔ محبت تمہیں بلند کرتی ہے تو کبھی زمین پر پٹخ دیتی ہے۔ مگر اگر تم محبت کو اس کی تمام آزمائشوں کے ساتھ قبول نہیں کر سکتے، تو بہتر ہے کہ تم محبت کے دائرے میں قدم ہی نہ رکھو۔”

یہی جبران کی فکر تھی۔ وہ زندگی کو اس کی تمام حقیقتوں کے ساتھ قبول کرنے پر زور دیتا تھا۔

خلیل جبران کی فکری دنیا مشرق و مغرب کے امتزاج سے تشکیل پائی تھی۔ اس کی تحریروں میں صوفیانہ گہرائی بھی تھی اور مغربی فکر کی جدت بھی۔ وہ روحانی آزادی کو جسمانی آزادی سے زیادہ اہمیت دیتا تھا۔

اس کی زندگی میں نیویارک کا ماحول، بوسٹن کے ادبی حلقے اور پیرس کے آرٹ اسکولز سبھی نے اثر ڈالا۔ مگر اس کا دل ہمیشہ لبنان کے دیوداروں اور مشرقی زمین کی سادگی کے ساتھ جڑا رہا۔ وہ ایک بار کہتا ہے:

“میری روح مشرق کی مٹی سے بنی ہے، مگر میرے خیالات مغرب کے دریاؤں میں بہتے ہیں۔ میں ان دونوں جہانوں کے درمیان کھڑا ہوں—نہ مکمل طور پر یہاں، نہ مکمل طور پر وہاں۔”

جبران کی زندگی میں کئی خواتین آئیں، مگر اس کی سب سے اہم اور قریبی ساتھی میری ہسکل تھیں، جو نہ صرف اس کی دوست بلکہ سرپرست بھی تھیں۔ انہوں نے جبران کی تعلیم کے اخراجات برداشت کیے اور اس کے ادبی سفر میں ہمیشہ اس کا ساتھ دیا۔ ان کی محبت گہری مگر پیچیدہ تھی، جو جذباتی قربت اور فکری ہم آہنگی سے عبارت تھی۔

اس کے علاوہ، جبران کی ایک اور محبت میٹائلڈ گیڈ تھیں، جو اس کے آخری دنوں میں اس کے قریب رہیں۔ مگر جبران کی زندگی میں محبت ہمیشہ ایک خواب کی مانند رہی—حقیقت کے قریب، مگر ہمیشہ ہاتھوں سے پھسلتی ہوئی۔

زندگی نے جبران کو کئی آزمائشوں میں مبتلا رکھا۔ مسلسل محنت، بیماریوں اور تنہائی نے اس کی صحت پر گہرا اثر ڈالا، اور 10 اپریل 1931 کو نیویارک میں، صرف 48 سال کی عمر میں، اس نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔ مگر موت اس کے تخیل کو مٹا نہ سکی—اس کا نام، اس کی فکر اور اس کی تحریریں آج بھی زندہ ہیں۔

خلیل جبران نے محبت اور آزادی کی وہ شمع روشن کی جو آج بھی بے شمار دلوں کو منور کر رہی ہے۔ اگرچہ وہ جسمانی طور پر ہم میں نہیں، مگر اس کے الفاظ زندہ ہیں، اس کی فکر آج بھی سانس لے رہی ہے۔ اس نے کہا تھا:

“جب میں چلا جاؤں، تو میری کتابیں پڑھنا، اور مجھے انہی الفاظ میں تلاش کرنا جو میں نے محبت، زندگی اور حقیقت کے بارے میں لکھے ہیں۔ میں ان ہی میں زندہ ہوں، میں ان ہی میں سانس لے رہا ہوں۔”

لکھو کے ساتھ لکھواور واقعی، خلیل جبران کی روح آج بھی انہی الفاظ میں زندہ ہے، ہر اس دل میں جو محبت کو سمجھتا ہے، ہر اس ذہن میں جو آزادی کو محسوس کرتا ہے اور ہر اس آنکھ میں جو سچائی کو دیکھنے کی خواہش رکھتی ہے۔
*

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں