31

ادب؟/تحریر/ساجدہ بتول

چار پانچ دہاٸی پہلے کی بات ہے ۔ ایک دروازے پہ پردہ پڑا تھا اور اس کے کنارے دروازے کی چوکھٹ کو چھو رہے تھے ۔۔ رنگین اور خوبصورت پردے نے سر اٹھایا ۔ سامنے ایک عمارت کے اوپر پاکستانی پرچم پوری شان سے لہرا رہا تھا
عمارت کی چھت کے ایک کونے پہ ایک لمبا سا ڈنڈا لگایا گیا تھا ۔ اور ڈنڈے کے اوپری سرے پہ پاکستانی پرچم جلوہ افروز تھا ۔ یعنی پرچم بہت اوپر تھا اور پردہ بہت نیچے ۔
پردے نے سر اٹھایا اور پرچم کو مخاطب کر کے بولا ”اوٸے جھنڈے! اپنا اور میرا فرق دیکھ ۔ تُو ایک سادہ سے کپڑے سے بنا ہے اور تیرے اندر صرف دو ہی رنگ ہیں ، سبز اور سفید ۔۔ مگر مجھے دیکھ! میرا کپڑا کیسا خوبصورت ہے!! جس میں کٸی رنگ ہیں ۔
یہ سن کر بجاٸے شرمندہ ہونے کے ، پاکستانی پرچم کا سر مزید اونچا ہو گیا اور وہ بولا ”اور دیکھ ، کہ اس کے باوجود لوگ تجھے جوتے سے ٹھوکر مار کر اندر داخل ہوتے ہیں اور مجھے سلامی پیش کرتے ہیں ۔ میرے احترام میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ مجھے ہمیشہ اونچا رکھتے ہیں ۔ اور مجھے بہت بلند رکھا جاتا ہے ۔ میں چھت سے بھی اوپر کھڑا ہوں اور تُو چوکھٹ کو چھُو رہا ہے ۔ تُو اپنی ذلّت بھی دیکھ لے اور میری عزت بھی دیکھ لے ۔
پردہ اپنا سا منہ لے کر رہ گیا ۔ اس نے شرمندہ ہو کر نظر جھکا لی اور چوکھٹ کو تکنے لگا ۔
اتنی حکایت آپ نے پہلے بھی پڑھ رکھی ہو گی ۔۔۔۔۔ مگر اب یہ حکایت بڑھ گٸی ہے کیونکہ وقت آگے بڑھ گیا ہے ۔
پردے نے اس وقت جھنڈے سے بدلہ لینے کا سوچا تھا ۔۔ وہ کچھ دیر گہری سوچ میں گم رہا ۔۔ اور آخر اس نے ایک ترکیب سوچ لی ۔ اس نے اڑنا شروع کر دیا ۔ اڑتے اڑتے سب سے پہلے اس نے بڑے بڑے جاگیرداروں ، سرمایہ داروں اور رٸیسوں کی عقل تک رساٸی حاصل کی اور آہستہ آہستہ ان سب کی عقل پہ پڑ گیا ۔۔۔۔۔ عقل پہ پردہ پڑتے ہی دولتمندوں نے بڑی بڑی عمارات بنانا شروع کردیں ۔ یہ عمارات تین چار منزلہ سے ہوتے ہوتے دس ، بیس اور پچیس منزلہ تک پہنچ گٸیں اور اس سے بھی اوپر چڑھنے لگیں ۔ ان شاندار عمارات کی کھڑکیوں اور دروازوں پہ پردے کو لگایا جانے لگا اور پردہ دن بدن اونچا ہوتا چلا گیا ۔
یہ اس کا پہلا مرحلہ تھا جو اس نے عقل پہ پردہ پڑنے کی وجہ سے بآسانی طے کر لیا ۔
اب پردے نے دوسرا مرحلہ شروع کیا اور اسکولز اور سرکاری اداروں کے بڑے بڑے آفیسرز اور سیاستدانوں کی عقل تک پہنچا اور ان سب کی عقل پہ پڑ گیا ۔
عقل پہ پردہ پڑتے ہی بڑی بڑی شخصیات نے پاکستانی پرچم کی تعظیم و تکریم سنگرز کے ہاتھ میں دے دی ۔۔۔ پہلے جہاں 23 مارچ ، 25 دسمبر ،اور 14 اگست کی تقاریب میں عزت و احترام اور ادب کے ساتھ ملی نغمے پڑھے جاتے تھے ، اب وہاں میوزک اور ناچ کے ساتھ یہ ترانے بشکل گانے ، گاٸے جانے لگے ۔ پہلے جہاں پاکستانی پرچم کے اعزاز میں کھڑے ہو کر اس کو سلامی پیش کی جاتی تھی ، اب وہاں اس کے سامنے گستاخی سے ناچا جانے لگا ۔۔ اس طرح پردے نے دوسرا مرحلہ بھی طے کر لیا ۔
اب پردہ تیسرے مرحلے کی طرف آیا اور ایک بار پھر اڑنے لگا ۔ اڑتے اڑتے ایک بار پھر وہ حکمرانوں ، وزارت تعلیم ، تعلیمی اداروں کے سربراہان ، اور اساتذہ کرام کی عقل تک جا پہنچا اور ان سب کی عقل پہ پڑگیا ۔
آج پردے نے ایک بہت اونچی عمارت کی سب سے اوپری منزل سے نیچے نظر دوڑاٸی ۔۔۔ یہ ایک بہت بڑا ہوٹل ہے جس کی کھڑکی پہ لٹکا ہوا یہ پردہ کھڑکی کے شیشے سے نیچے جھانک رہا ہے اور سامنے سڑک کے پار ایک سرکاری اسکول ہے ۔ پردہ نیچے جھانکتے ہوٸے پاکستانی پرچم سے مخاطب ہے ۔ ” کیوں رے! آج بتا ، تُو اونچا ہے یا میں ؟ “
پاکستانی پرچم نے نظر اٹھانا چاہی اور بمشکل اوپر دیکھا ہے کیونکہ اب اس کو کپڑے سے نہیں ، لوہے سے بنایا گیا ہے۔آج یہ پرچم اپنی مرضی سے ہل بھی نہیں سکتا ، لہرانا تو دور کی بات ہے ۔ نظر اٹھانا اور جواب دینا تو ممکن ہی نہیں ۔ کیونکہ پردے کا تیسرا مرحلہ بھی مکمل ہو چکا ہے ۔ تمام بڑی شخصیات کی عقل پر پڑتے ہی اس نے پاکستانی پرچم کو ٹھوکروں میں رکھوانے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔
” بول ناں! “ پردہ دوبارہ بولا ۔ ” آج تو چوکھٹ کو تُو چھو رہا ہے ۔ ٹھوکروں کی زد میں تُو ہے ۔ اسکول کے بچے جب تک تجھے پیر سے ٹھوکر نہ ماریں ، وہ علم حاصل ہی نہیں کر سکتے کیونکہ تجھے ٹھوکر مار کر ہی وہ اسکول میں داخل ہو پاتے ہیں ۔ “
پاکستانی پرچم جو سرکاری اسکول کے گیٹ میں کھڑا ہے ، پردے کو جواب دینا چاہتا ہے ۔ کیونکہ اس کے پاس سمجھدار اور محبّ وطن لوگ موجود ہیں اور وہ جواب دینے کے لیے انہی سب کا انتظار کر رہا ہے کہ وہ اس کی طرف سے جواب دیں ۔ ۔۔۔ ہاں اسے انہی سے امید ہے کہ وہ اس طرف بھی نظر دوڑاٸیں گے ، اس کے لیے بھی مہم چلاٸیں گے ، اس کے لیے تحاریر لکھیں گے ، اس کے لیے تقاریر کریں گے ۔ سوشل میڈیا پہ آواز اٹھاٸیں گے ۔ ٹویٹر پہ ٹرینڈ چلاٸیں گے اور وزارت تعلیم سے مطالبہ کریں گے کہ اگر اور کچھ نہیں ہو سکتا تو کم از کم پاکستانی پرچم کو سرکاری اسکولز کے گیٹ میں سے تو ہٹا دیا جاٸے!!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں