49

دوستی کا خاموش خاتمہ/تحریر/خضر نواز تنولی

دوست انسان کے عقل و فکر کی ایک حد تک عکاسی کرتے ہیں ۔ کہیں پڑھا تھا کہ انسان اپنے دوست کے ایمان پر ہوتا ہے اگر کسی شخص کو جانچنا ہو تو اس کے یاروں کی محفل کو دیکھا جائے ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ انسان آپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے ۔مخلص دوست اللہ کے عظیم نعمت ہوتے ہیں۔ کل مجھے ایک پرانے دوست کی کال آئی اور ملنے کا کہنے لگا میں حیران ہوا کہ آج کیسے انہیں ہماری یاد آگئی ؟ جبکہ موصوف کو کئی بار ملاقات کے لیے بلایا مگر وہ نہ آ سکے ۔آج اچانک شرف ملاقات بخش رہے ہیں۔ خیر تو ہے ۔ ؟بہرحال اس بات کا ذاتی تجربہ ہے کہ زندگی کی طرح دوستی کی بھی Expiry date ہوتی ہے ۔ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ اب فلاں دوست اور ہمارے درمیان پہلی سی گپ شپ ، راز و نیاز کا معاملہ نہیں رہا ۔ گو کہ ہم آپس میں دشمن بھی نہیں ہیں پر دوست بھی باقی نہ رہے۔

دوستی کے اس خاموش خاتمے سے کئ بار پریشان ہوا اور سوچنے لگا کہ کیا وجوہات ہو سکتی ہیں کہ دن رات ایک دوسرے سے ملنے جلنے والے ، زندگی کے ہر موڑ پر ساتھ دینے کا وعدہ کرنے والے اچانک سے کیسے بدل جاتے ہیں ۔ ؟
اور مظبوط تعلق کے بجائے صرف شناسا سا رہتے ہیں ۔
دوستوں کے تعلقات کی بھی مختلف نوعیتیں ہوتی ہیں۔
1۔ کسی کے ہاں دوستی کے معانی صرف کال کرنا اور آپ ڈور کر انکی لڑائی میں کود پڑیں ان کے لیے لوگوں سے لڑیں بھڑیں اور عوام میں ان کا رعب دبدبہ قائم رکھنے کی پالیسی چلاتے رہیں۔
2۔ کچھ دوست صرف آپ کو قرض کے لیے کال کرتے ہیں اگر قرضہ نہ دیا جائے تو فوراً تمام تعلقات کی مین لائن کاٹ لینے کی دھمکی دیتے ہیں۔ باوجود جانتے ہوئے کہ انہوں نے یہ قرض موت کے نیٹے ( میعاد ) پر لے کر واپس نہیں کرنا۔
3۔ بعض کے ہاں دوستی صرف یہ ہے کہ آپ انکے فرضی معاشقوں کی لمبی چوڑی داستانیں سنیں اور منہ سے رال ٹپکاتے ہوئے واہ واہ کرتے جائیں ۔
4 ۔ بعض کے ہاں دوستی کا مطلب اگلے کی دماغ کی PT کرنا ہوتا ہے ایسے لوگ اپنی ڈیوٹی اور دفتر کے کارناموں کی طویل ترین داستانیں سنا کر اپ کو قائل ہونے پر مجبور کرتے ہیں کہ ان کے بغیر ان کا Department یا دفتر بالکل بھی نہیں چل سکتا اور دنیا کے سب سے سیانے آدمی وہ ہیں۔
5۔ بعض مزاجاً اتنے کمینے ہوتے ہیں کہ انکی گفتگو کا آغاز کسی کی ماں بہن ایک کرنے سے شروع ہوتا ہے اور انکی نکی سی ( چھوٹی سی ) خواہش ہوتی ہے کہ سامع بھی انکی محرمات کے مقدسات کو تفصیلی طور پر یاد کرتے ہوئے گپ شپ کو اختتامی شکل دے ۔
کتابی بات ہے کہ دوستی ایک دھاگے کی طرح ہوتی ہے ۔ ہر روز شیطان اس دھاگے کو کھینچتا ہے، یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ دھاگا کچا بناتے ہیں یا مضبوط۔۔۔ ؟
شاعر نے کہا تھا نا !

مجھے دوست کہنے والے ذرا دوستی نبھا دے
یہ مطالبہ ہے حق کا کوئی التجا نہیں

ہمارے ہاں ہر شخص سچا دوست تلاش کرتا ہے مگر خود سچا بننے کی کوشش نہیں کرتا۔

آج کل جیسے لوگ نازک ہو گئے ہیں اس طرح آپس کے تعلقات ، رشتے ناطے بھی پل صراط پہ کھڑے ملتے ہیں جہاں ہلکی سی جنبش آپ کو طویل ترین خفگیوں کی جہنم میں پھینک سکتی ہے ۔ لہذا احتیاط کی اشد ضرورت ہے۔
ٹیکنالوجی میں ترقی کے باعث لڑائیاں بھی Digitalize ہو گئیں ہیں ۔
آپ نے status دیکھا تو خاص رسپانس نہیں دیا ۔؟
میری پوسٹ کو لائک کمنٹ اور شئر کیوں نہیں کیا ۔؟
آپ online تھے پر مجھے میسیج نہیں کیا Ignore کر رہے ہیں کیا ۔ ؟
غرض جیسے لوگ ویسی باتیں
اپنا تو ماننا ہے کہ بلاوجہ کی attachment حساس بنا لیتی ہے ۔

رابطے حد سے بڑھ جائیں تو غم ملتے ہیں

اسی واسطے ہر شخص سے ہم کم ملتے ہیں

لہذا رابطوں میں اعتدال ضروری ہے ۔ ورنہ اپنے ہاتھ سے ہم اپنا درد سر تراش رہے ہونگیں ۔

بارگاہ خداوندی سے دعا ہے کہ ہمیں بھی ایسے دوست ملیں جو صراط الذین انعمت علیہم کے مصداق ہوں اور ان لوگوں سے پناہ ملے جو غیر المغضوب کے گروہ میں شامل ہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں