1998 میں ،مئی کا ایک دن ہے، چاغی کا سخت گرم علاقہ، پہاڑ جیسے تپتی آگ کے گولے ہوں۔ ریسرچ لیبٹری میں نوجوان انجینیئر علی، اپنے کام میں جتا ہوا تھا ۔وہ کئی ہفتوں سے اپنی ٹیم کے ساتھ یہاں موجود تھا۔
آ ج اس کے دل کا عجب عالم تھا ۔فخر ،خوف، دعائیں ،سب ساتھ ساتھ چل رہا تھا ۔
اس نے اپنے دادا کی تصویر اپنی جیب سے نکالی اور ان کی یادوں میں کھو گیا ۔وہ ایک بہادر سپاہی تھےجو1965 کی جنگ میں شہید ہو گئے تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے،” بیٹا دشمن سے مقابلہ صرف بندوق سے ہی نہیں بلکہ اپنے علم سے بھی کرو”
آخر وہ مبارک لمحہ آگیا 28 مئی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قیادت میں، پوری ٹیم خاموشی سے اپنے اپنے کام میں لگی ہوئی تھی۔ سہ پہر سے کچھ دیر بعد علی نے اپنی آخری کوڈ لائن چیک کی اور اسی پل کمانڈر کی آواز آئی “بسم اللہ الرحمن الرحیم !فائر” زمین کانپی ، پہاڑ لرز اٹھا ،
چاغی کے پتھر سنہری ہو گئے۔
ایک نئی تاریخ رقم ہو گئی۔
اللہ اکبر کے فلک شگاف نعروں سے سارا ماحول گونج اٹھا۔
اللہ اکبر، اللہ اکبر
علی شکر سے زمین پر سر بہ
سجود ہو گیا اور سوچنے لگا آج میرے دادا کو مجھ پر فخر ہوگا۔ ہمارے دشمن کو پیغام چلا گیا کہ ہم جاگ رہے ہیں ۔
اسی لمحے ایک بزرگ سائنسدان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ،”بیٹا آج ہم نے ایٹمی دھماکہ ہی نہیں کیا بلکہ دشمن کے غرور کو بھی چاغی کی زمین میں دفن کر دیا ہے”
وہ دن تھا تکبیر کا، نعرہ تھا اسلام کا
چمکا پہاڑ چاغی کا
سر بلند ہوا نام پاکستان کا
یہ صرف ایک لمحے کی تصویر نہیں بلکہ اس نسل کی قربانی اور عزت کی داستان ہے جس کی محنت اور لگن نے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ پاکستان ہمیشہ زندہ باد
