56

روحانی سکالرحکیم سیدمزمل حسین نقشبندی کا خصوصی انٹرویو/انٹرویونگار/حفیظ چودھری/قسط نمبر2

آج کے اس پرفتن دور میں ہزاروں شعبدہ باز عامل اپنی مکروہ حرکتوں سے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور روحانی علاج کے نام پر لاکھوں روپے فیس وصول کررہے ہیں ۔سادہ لوح عوام اپنی پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے اپنی جمع پونجی ان شعبدہ باز عاملین کے ہاتھوں لٹانے پر مجبور ہیں ۔ان حالات میں اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جو دولت کی ہوس سے بے نیاز ہوکر روحانی امراض کا علاج کر رہے ہیں ۔ان گنے چنے افرادمیں معروف روحانی سکالر،شیخ العاملین،حکیم سید مزمل حسین نقشبندی صاحب بھی ہیں جو لاہور کے علاقہ دھرم پورہ میں ’’خانقاہ ربانیہ‘‘ کے مسند نشین ہیں۔آپ کی تالیف کردہ کتاب’’اسلامی وظائف کا انسائیکلوپیڈیا‘‘سے دنیابھرکے علماء ،طلباء سمیت خواتین وحضرات کی ایک بڑی تعداد اسفتادہ کررہی ہے ۔ روحانی امراض کے علاج اور شعبدہ بازعاملین کے حوالے سے’’ لکھوڈاٹ اوآرجی‘‘ویب سائٹ نے ان سے تفصیلی انٹر ویوکیا ہے ،قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

سوال:۔موجودہ پر فتن دورمیں جادوسے بچاؤ کے کیا طریقے ہیں ؟

جواب:۔ سیدمزمل حسین !جادو جیسا بھی ہو وہ اپنا اثر ضرورکرتا ہے ۔ اللہ رب العزت نے مسلمانوں کیلئے اس سے بچنے کے بہت سے طریقے بیان کئے جن میں سے چند ایک قابل ذکر ہیں ۔ہروقت باوضو رہنا ،نماز کی پابندی کرنا ،قرآن مجید فرقان حمید کی تلاوت کا معمول بنانا اور روزانہ کی بنیاد پر آیۃ الکرسی کا اہتمام کرنا ۔یہ وہ چیزیں ہیں جن کا اگر انسان معمول بنا لے تو اس پر جادو کا اثرکم سے کم ہوگا اور وہ بڑے نقصان سے بچ جائے گا جس سے غیر مسلم نہیں بچ سکتے ۔میں نے امریکہ اور بعض یورپی ممالک کے لوگوں کا علاج کیا ہے ،ان لوگوں پر جس قسم کا جادوکیا گیاتھا اس کے اثرات بہت ہی زیادہ تھے جو قابل تحریر نہیں ہیں ۔

سوال :۔جادوکس طرح اثرانداز ہوتا ہے ؟

جواب:۔سیدمزمل حسین !جادو ہر طرح سے اثراندازہوتا ہے اس سے گھر کا سکون ختم ہوسکتا ہے ،میاں بیوی میں علیحدگی ہوسکتی ہے ، لاعلاج بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں ،لوگوں کو اخلاقی لحاظ سے تباہ کیا جاسکتاہے۔ ان کا کاروبار ختم کیا جاسکتا ہے ۔حتیٰ کہ یہ ایسا موذی مرض ہے کہ اس کے ذریعہ انسان کی موت بھی واقع ہوجاتی ہے ۔

سوال :۔کیا ’’اسلامی وظائف کا انسائیکلو پیڈیا ‘‘کے علاوہ بھی آپ کی کوئی تصنیف ہے ؟

جواب :۔ سیدمزمل حسین !’’اسلامی وظائف کا انسا ئیکلو پیڈیا ‘‘میری پہلی کتاب ہے ۔میرے دوستوں اور عوام الناس نے جس طرح اس کو پذیرائی دی اس کیلئے میں انتہائی ممنون ہوں ۔’’اسلامی وظائف کا انسائیکلو پیڈیا ‘‘لکھنے سے میرا مقصدقلمکار برادری میں شمولیت نہ تھا ۔ محض اپنے اندر کے اس شعلے کو جلائے رکھنے کی ایک کوشش تھی جو میرے خیال میں میری زندگی کیلئے ضروری تھا ۔میں ردی کے ڈھیر جمع نہیں کرنا چاہتا ۔اس کتا ب کی باربار اشاعت میرے لئے اعزاز کی بات ہے ۔میں سید سلمان ندویؒ یا حضرت حکیم الامت ؒ سے زیادہ بہتر نہیں لکھ سکتا۔ ادب میری منزل نہیں ۔حضرت حکیم لقمان ؒ کے نسخے اور کلیات اقبا ل ؒ بھی بک شیلف کی زینت بن کر رہ گئے ہیں ۔میں نے عالیشان اور بلندوبالا لیکن غیر آباد مساجد کی نسبت بغیر سائبان کے آباد مساجد کو ہمیشہ ترجیح دی ہے ۔ لائبریریاں مجھے شکار گاہ محسوس ہوتی ہیں ۔ جہاں رکھی ہوئی موٹی موٹی کتابیں سرچ لائٹ کی طرح دوڑتے بھاگتے ہرن کو حیرت زدہ کردیتی ہیں ،وقت بآسانی ان کا شکا رکرلیتا ہے ۔بڑے بڑے ذہین آدمی محض کتابی ورزشوں اورفلسفیانہ حکمتوں کا شکارہوجاتے ہیں ۔عقل مفقود اورجسم مفلوج ہوجاتا ہے ۔ لائبریری میں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں ایک ایسا بیمار وجود ہوں جو ایٹم بم کے راز ذہن میں دفن کئے ہوئے مکھی اڑانے کے قابل بھی نہیں ،لیکن جس طرح میری پہلی کتاب کوپذیرائی ملی ہے اس پر میرے احباب بضد ہیں کہ میں کوئی کتاب اور بھی لکھوں اس پر اپنی یاداشتوں کو قلم بند کرنے کا ارادہ ہے ۔

سوال :۔موجودوہ دورمیں خانقاہی نظام کی اہمیت پر روشنی ڈالئے ؟

جواب :۔سیدمزمل حسین !خانقاہوں میں نفسانی خواہشات پر قابو پانے کا اللہ تعالیٰ کے ذکر سے طریقہ بتایا جاتا ہے ۔اللہ والوں کے فرمودات کی روشنی میں تزکیہ نفس کرایا جاتا ہے اوریہ سلسلہ ہمارے اسلاف اوراکابر علمائے دیوبند کا جاری کردہ ہے اور برصغیر میں اسلام کی شمع روشن ہیں ۔آج بھی خانقاہی نظام کی خدمات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں ۔

سوال:۔ اللہ والوں کے پاس بیٹھنے سے یا ذکر کرنے سے کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں ؟

جواب :۔ سیدمزمل حسین !اللہ والوں کی باتیں عجیب ہوتی ہیں ،صرف باتیں ہی نہیں ان کا تو ہرکام عجیب ہوتا ہے ،ان کی نشست وبرخواست، آمدورفت، چال ڈھال ،گفتگو ، حرکات و سکنات ،دن اور رات غرض کہ ہربات عجیب ہوتی ہے ۔ ان کی ہر ادا میں سیرت امام الانبیاء، نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن ہوتا ہے ۔اس حسن میں کشش ہوتی ہے اوروہ کشش طالبان رب العالمین کو اپنی طرف کھینچتی ہے ،یوں ایک دنیا ان کی طرف کھنچی چلی جاتی ہے ۔ معرفت وطریقت کے پیاسے اپنے دلوں کی پیاس بجھانے کیلئے ان کی طرف دوڑتے ہیں اور عشق الہٰی کے جام پر جام لنڈھاتے ہیں ۔ وادیوں اور ندی نالوں کی ’’بے زبان ‘‘ مخلوقات ان کے حق میں دعائے خیر کرتی ہیں اور آسمان ان کے وجود پر فخر کرتا ہے اور اللہ والوں کے دم قدم کی برکات سے زمین کی سرسبزی وشادابی میں اضافہ ہوتا ہے ۔پہاڑ ان کی عظمت کے آگے سرنگوں ہوتے ہیں اور دریا وجد میں آکر جھومتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے دلوں میں ان کی محبت القاء فرمادیتے ہیں جبکہ حدیث مبارکہ کے مطابق اللہ تعالیٰ اپنے مقرب ترین فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ اے جبرائیل ؑ! مجھے میرا فلاں بندہ محبوب ہے تم بھی اسے محبوب بنالو چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی اسے اپنا محبوب بنا لیتے ہیں ۔اور فرشتوں میں ان کی صداگونجتی ہے اے اللہ کی معصوم نوری مخلوق فلاں خاکی اللہ تعالیٰ کا محبوب بن گیا ہے تم بھی اسے اپنا محبوب بنالو ۔چنانچہ وہ بندہ اعلانیہ مقام حاصل کرلیتا ہے ۔بات صرف یہاں تک نہیں ٹھہرتی بلکہ آگے چل کر اللہ کے بندوں تک پہنچتی ہے ۔یوں اس کی عظمت مخلوق کی انواع واقسام کے دل میں گھر کر جاتی ہے ۔زمین کے سینے پر جس وہ عجز وانکساری کا پتلہ اللہ تعالیٰ کی یاد میں سسک رہا ہوتا ہے ،زمین وآسمان کی مخلوقات میں اس کے نام کی دھو م ہوتی ہے ۔ اورجب وہ مخلوق کو خالق کی معرفت کا درس دے رہا ہوتا ہے تب وہ چلتا تو زمین پر ہے لیکن اس کے قدم آسمان پر پڑتے ہیں ۔الغرض اسی اللہ کے بندے کا وجود اللہ کی نشانی ہوتا ہے اور لوگ اسے دیکھ کر اپنے بھولے ہوئے خالق کویاد کرتے ہیں۔

سوال :۔کیاآج کے اس دورمیں ایسے بندوں کا وجود ہے ؟اور ان کو کیسے تلاش کیا جاسکتا ہے ؟

جواب :۔سیدمزمل حسین !آج دنیا ایسے لوگوں کو تلاش کرنا چاہتی ہے لیکن کر نہیں پاتی ،وہ گندم نما جوفروشوں کے چنگل میں پھنس کر عقائد واعمال کی پونجی لٹا بیٹھتی ہے اور ایمان وایقان میں شرک باللہ کی آمیزش سے اپنی متاع گراںسے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ وہ استدراج کی کرامت سمجھ کر گمراہ ہوجاتی ہے ۔کیا ضروری نہیں کہ اسے صحیح راستہ دکھایا جائے اور اسے حقیقی اولیاء اللہ سے روشناس کرایا جائے اور اسے بتایا جائے کہ سب سے بڑی کرامت اعمال وافعال میں کتاب اللہ اور سنت ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر استقامت ہے ۔

سوال :۔ کیا ولی کیلئے کرامت ضروری ہے ؟اور اس پر ذراتفصیل سے روشنی ڈالیئے ،نیز یہ بھی وضاحت کریں کہ شیخ کیسا ہونا چاہئے ؟

جواب :۔سیدمزمل حسین ! یاد رکھیں کرامت ایک ضمنی چیز ہے ،منزل نہیں اورشاید نشان ِ منزل بھی نہیں لیکن آج کی دنیا کرامتوں کی بنیاد پر عقائد کے شیش محل اورتاج محل تعمیر کرتی ہے اور ساری زندگی طریقت کے مداریوں اور سنت کے بیوپاریوں کے پیچھے لگ کر بھول بھلیوں میں گھومتی رہتی ہے ۔ تب بھی ضروری ہے کہ اسے جعلی اور حقیقی کرامت کا فرق بتایا جائے ۔کچھ شک نہیں کہ روئے زمین پر طریقت کی سب سے بڑی اور سب سے پہلی درسگاہ وہی ہے جو آج سے پندرہ سوسال قبل مدینہ منورہ میںمحمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں صفہ نامی چبوترے میں قائم ہوئی تھی اور جس سے حضرت سیدنا صدیق اکبر ؓ وسیدنا فاروق اعظمؓ ،عثمان ؓوحیدرؓ،طلحہ ؓ وزبیر،سعدؓ وسعیدؓ ،حضرت بلال ؓ وسلمان فارسیؓاور دیگر جانثاروںنے ’’لاالہ‘‘ کا درس لیا تھا ،تب ہمیں دیکھنا اور پرکھنا چاہیے کہ آج کو نسی خانقاہ ہے جس کا شیخ ’’لاالہ الااللہ ‘‘کی ضربیں لگواتے وقت ’’محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘کی سنت کو پس ِ پشت نہیں ڈالتا۔ یاد رکھو جو بھی اس معیا رپر پورااترے’’بس وہی شیخ کامل ہے‘‘ اوراہل زمانہ کو اس کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دینا چاہیے ۔

سوال :۔ آج مختلف فرقوں میں ہر تیسرابندہ مجتہد بنا بیٹھا ہے ؟اور ہر کوئی اپنے مکتبہ فکر کے حق ہونے کا داعی ہے ؟ عام آدمی کس کی بات مانے اور کس کے پیچھے چلے ؟

جواب :۔ سیدمزمل حسین !میں شرح صدرکے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ میںنے خوب غوروفکر اور بھر پورمشاہدات ومعلومات کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذکیا ہے کہ ’’من حیث الجماعت‘‘کسی طبقے کو کم از کم برصغیر پاک وہند میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ شریعت وطریقت کا صحیح باغبان و پاسبان کہلا سکتا ہے تو وہ دارالعلوم دیوبند ہے ۔اس کے سرپرستوں، مربیوں اورمعلمین ومتعلمین کے سوا کوئی نہیں ۔اوریقینا یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے برصغیر پاک وہند میں مشعل ِ رشدوہدایت کو جلائے رکھا اور افراط وتفریط کے راستوں پر چلنے کے بجائے اعتدال وتوازن کے ساتھ حب اللہ کو تھامے رکھا ۔کوئی شک نہیں کہ اگر ان حضرات کی کوششیں اور قربانیاں نہ ہوتیں تو ہند کے ہندو معاشرے میں رچا بسا انسان پیر پرستی کے جذبے میں جل کر راکھ ہوجاتا یا پھر اگر بچ جاتا تو قبورومزارات کی مٹی پھانکتا رہتا ۔اللہ رب العزت کا کرم ہے اور اس کی عنایت کہ یہ لوگ خود بھی شریعت وطریقت کے جامع ہیں اوراپنے متوسلین ومعتقدین کی صحیح راہنمائی میں کوشاں ہیں ۔یہ اصحاب ِ کرامت بھی ہیں اور با استقامت بھی ۔

سوال:۔ولی یا شیخ کی تعریف کیا ہے ؟اوروہ کن خوبیوں کا حامل ہونا چاہئے ؟

جواب :۔ سیدمزمل حسین !ولی اس کو کہتے ہیں جو اللہ اور اس کی صفات کا بقدرامکان عارف ہو ،طاعات کا التزام کرتا ہو،رزق حلال کماتا ہو اورکھاتا ہو،لوگوں کے مال پر اس کی نظر نہ ہو۔بدعات سے دور رہواور اپنے آپ کو مافوق الفطرت ظاہر نہ کرتا ہو ،بڑی بڑی گاڑیوں ، قافلے ساتھ رکھنے سے ،شاہی قافلے کی مانند مسلح محافظوں ،بڑے بڑے جبے اور عمامے رکھنے سے کوئی ولی یا شیخ نہیں بن سکتا ۔اگر بڑے بڑے جبے اور عمامے رکھنے سے کوئی شیخ بنتا تو فرعون سب سے بڑا شیخ ہوتا اس کے خلعت سلطانی کو درجنوں افراد اٹھاکر اس کے پیچھے چلتے تھے اور ’’ہٹوبچو‘‘ کا شور کرنے والا ولی کامل یاشیخ ہوتا تو بڑے بڑے بادشاہ ولی کامل ہوتے ،جن کی آمد کے وقت انسانوں کو بھی چیونٹیوں کی طرح رونددیا جاتا تھا

سوال :۔جس سے کوئی کرامت ظاہر ہو کیا وہ واقعی ولی ہوتا ہے ؟اور کرامت کی تعریف کیا ہے ؟

جواب سیدمزمل حسین !کرامت یہ ہے کہ کسی نبی کے متبع کامل سے خلاف عادت الہٰی کوئی بات ظاہر ہو اور اسباب طبیعت وہ اثرپیدا نہ ہوا ہو،خواہ وہ اسباب جلی ہوں یا اسباب خفی ہوں پس اگر وہ امرخلاف عادت نہ ہو یا اسباب طبیعت جلی یا خفی سے ہوں تو وہ کرامت نہیں ہے ۔ جو شخص اپنے آپ کو کسی نبی کا پیروکار نہیں کہتا اس سے جوکام ظاہرہو وہ بھی کرامت نہیں ہے ۔اسی طرح جوگیوں اورجادوگروں سے بعض ایسے امورظاہر ہوجاتے ہیں۔اسی طرح اگر وہ شخص اتباع نبی کا مدعی توہے مگرحقیقت میں متبع نہیں خواہ اصول میں اختلاف کرتا ہو ، جیسے اہل بدعت یا فروع میں اختلاف کرتا ہوجیسے فاسق وفاجر مسلمان اگران سے بھی ایسا کام ظاہر ہو تو وہ کرامت نہیں ہے بلکہ یہ استدراج ہے اور یہ سخت مضر ہے کیونکہ یہ شخص خلاف عادت کام ظاہر ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو کامل سمجھے گا اور ا س دھوکہ میں حق کے طلب کرنے اور اتباع کرنے کی بھی کوشش نہیں کرے گا۔کرامت کے ظہور کیلئے اس ولی کوعلم ہونا ضروری نہیں اور نہ اس کا ارادہ ضروری ہے ۔

سوال :۔ کرامت کی کتنی قسمیں ہیں ؟

جواب :۔سیدمزمل حسین !کرامت کی تین قسمیں ہیں (1)یہ کہ علم بھی ہو اور ارادہ بھی ہو ،جیسے امیر المومنین حضرت سیدنا عمربن خطاب ؓ کے فرمان کے مطابق دریائے نیل کا جاری ہونا ،جیسے حضرت خالد بن ولیدؓ کا زہر قاتل پی جانا اور زہر کا آپؓ پر اثر نہ کرنا ۔ (2) یہ ہے کہ نہ علم ہو اور نہ ارادہ ہو ،جیسے خلیفہ بلافصل حضرت سیدنا ابوبکرصدیق ؓ کا مہمانوں کے ساتھ کھاناکھانا اورکھانے کی مقدار کا دوگنا،تین گناہوجانا ۔ اسی لئے حضرت صدیق اکبرؓ کو اس پر تعجب ہوا جس سے ان کے علم وارادہ کا پہلے سے نہ ہونا ثابت ہوتاہے ۔(3) یہ ہے کہ علم تو ہو مگر ارادہ نہ ہو ،جیسے حضرت مریم علیہاالسلام کے پاس بے موسم ہوائوں اور پھلوں کاآنا۔

(جاری ہے )

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں