59

ندامت کے آنسو/ازقلم/رئیسہ صدیق

“جب صبر کرتے ،کرتے بندہ تھک جائے تو کیا کرنا چاہیےـــ؟”
” اللہ کے آگے خوب رو لینا چاہیے”
میرے جواب پہ خشک آنکھوں سے اس نے میری جانب دیکھا میں پہلے ہی اپنے دائیں جانب بیٹھی لڑکی کی طرف متوجہ تھی
وہ لگ بھگ 28 سال کی ہوگی بڑی بڑی سرخ آنکھیں رونے کی چغلی دے رہی تھیں
“یعنی اس کا رونا اسی کے آگے روؤں ” یہ بھی خوب کہی ــــ

میں حیرت کی تصویر بنی اس کی جانب دیکھنے لگی
“کیا کہا ـــ؟” اس کے جملے مجھے ہضم نہیں ہو رہے تھے
” رہنے دیں آنٹی آپ میرے درد کو نہیں سمجھیں گئیں جب میرے احساسات اپنے ہی نہیں سمجھتے تو غیروں سے کیا امیدیں لگانی ــ”

اس نے اپنی پہلی والی بات کو دہرایا نہیں تھا اور میں حیرت کا مجسمہ بنی اس کے لفظوں پر غور کر رہی تھی کہ وہ پھر سے گویا ہوئی
” نفرت ہو گئی ہے مجھے اس زندگی سے ۔۔۔۔ دم گھٹنے لگا ہے میرا اس پردے میں ۔۔۔۔خوبصورت ہوتے ہوئے بھی کوئی مجھے اپنانے کو تیار ہی نہیں۔۔۔۔۔ ہر کوئی کہتا ہے پردہ کرنا چھوڑ دو۔۔۔۔ میں اجنبی ہو چکی ہوں۔۔۔۔ میرے آگے ، پیچھے لوگوں کا ہجوم بھی نہیں۔۔۔ میں زندگی جی نہیں رہی بلکہ گزار رہی ہوں۔۔۔۔ زندگی جینا تو اس کو کہتے ہیں۔۔۔۔ “
اس نے اپنے سامنے تھوڑی دور کھڑی لڑکی کی طرف اشارہ کیا۔۔۔
اس کے لفظوں میں بے بسی نمایاں تھی
میں نے اس کے اشارے کی سمت دیکھا وہ لڑکی تقریبا اس کی ہم عمر ہی تھی اس کا زیب تن لباس اس کے جسم کو چھپانے میں ناکام ہو رہا تھا دوپٹے سے بے نیاز وہ اپنے ساتھی لڑکے کے ساتھ خوش گپوں میں مصروف تھی۔۔۔
کراچی جیسے شہر میں یہ لباس پہننا عام سی بات سمجھی جاتی ہے خاص بات تو پردہ تھی، ہے ، اور رہے گی۔۔۔
جس پردے سے میرے ساتھ بیٹھی لڑکی تنگ تھی اس پردے کی خاطر نجانے کتنی ماؤں، بہنوں اور بیٹوں نے قربانیاں دی۔ میں نے دکھ اور افسوس کے ساتھ اس لڑکی کی طرف دیکھا جو حسرت سے ان لڑکیوں کو دیکھ رہی تھی۔
“بیٹا آپ کا نام کیا ہے ـــ؟” میں نے پیار سے پوچھا
“نساء عالم ــــ” تھکے مسافر جیسا لہجہ تھا اس کا
“بہت خوبصورت نام ہے”
میں ہلکا سا مسکرائی چونکہ میں نے نقاب لیا تھا اس لیے وہ میرا مسکرانا نہ دیکھ سکی۔۔۔
” بالکل بھی پیارا نہیں ہے ـــ”
” بیٹا جو نام آپ کا ہے نا قرآن پاک میں اس نام کی سورت اللہ نے رکھی ہے۔ پتا ہے نساء کا مطلب کیا ہے ؟”
“نساء کا مطلب ہے عورت۔۔۔ اور عورت کا مطلب ہے پردہ ۔۔۔”
زندگی سے بیزار لڑکی نے جواب نہ دیا تو میں نے خود ہی وضاحت کی
“جانتی ہوں میں ـــ “اس نے اکتا کر کہا
” لیکن صحیح معنوں میں نہیں جانتی ورنہ کبھی اس راستے کی خواہش نہ کرتی جو حوا کی بیٹیوں کے لیے بالکل بھی مناسب نہیں ہے ـــ”
” صرف میں ہی حوا کی بیٹی نہیں ہوں یہ جو ہمارے ارد گرد بے پردہ گھوم رہی ہیں یہ بھی حوا ہی کی بیٹیاں ہیں۔ پابند صرف میں ہوں یہ کیوں نہیں ـــ؟”
وہ غصے سے پھٹ پڑی تھی۔
“کیونکہ آپ اللہ کی چنی ہوئی ہو۔۔۔۔اور آپ اللہ کو پردے میں پیاری لگتی ہو۔ اس لیے اس نے آپ کو اپنا پابند کر دیا ہے۔ وہ چاہتا ہے آپ اس کے ہر حکم کو مانو اس کے لیے اپنی خواہشات کو مار دو۔ ان خواہشات کو جو آپ کو اللہ سے دور کر رہی ہیں۔”
میں سانس لینے کو رکی وہ میری ہی طرف متوجہ تھی میں پھر سے گویا ہوئی
“آپ نے کہا مجھے نفرت ہے زندگی سے ـــ”
” دیکھو بیٹا ! ایسی زندگی سے نفرت نہیں ہوتی جہاں پر پردے کو آپ کا مقدر بنا دیا جائے وہ ہر کسی کو پردے کی توفیق نہیں دیتا۔جسے وہ پسند کرتا ہے اسے دین کی سمجھ دیتا ہے اور دین کی سمجھ سب سے بڑی دولت ہے ۔۔۔”
وہ تھکے ماندے مسافر کی طرح خاموشی سے سن رہی تھی
اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتا ہے
” اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر ستائی نہ جائیں گی “
( سورت الاحزاب)
دیکھو بیٹا ! اللہ رب العالمین نے ہمیں پردے کا حکم دیا ہے ـ
اور اس نے پردے کو ہماری پہچان بنا دیا ہے ۔تاکہ ہمیں کوئی تنگ نہ کر سکے اور جو اللہ کا حکم نہیں مانتی وہ اُس طرح ستائی جاتی ہیں”
میں نے دور کھڑی لڑکی کی طرف اشارہ کیا جو مختصر سے لباس میں سج دھج کر باہر نکلی تھی اور اب چند اوباش اسے تنگ کر رہے تھے
اس نے میرے اشارے کی جانب دیکھا تو اپنی جگہ پر سمٹ گئی اس کی حیا کو محسوس کرتے ہوئے میں دل سے مسکرائی
“آپ نے کہا خوبصورتی کے باوجود بھی کوئی آپ کو اپنانے کے لیے تیار نہیں ـ
تو بیٹا اللہ کے راستے میں آزمائش ضرور آتی ہے ۔آپ کی شادی میں دیر بھی آزمائش ہے اور جو پردے کی وجہ سے انکار کرتے ہیں حقیقت میں اللہ ان کو آپ کے قابل ہی نہیں سمجھتا ۔۔۔”
اللہ کی دنیا بہت بڑی ہے کچھ لوگوں پر اس نے دنیا کو مکمل یا ختم نہیں کیا
صبر کرو !
اور جو جتنا صبر کرتا ہے اسے اتنا ہی پھل ملتا ہے
اور یاد رکھنا !
کبھی صبر مختصر ہوتا ہے اور کبھی صبر طویل وقت پر محیط ہوتا ہے جب صبر کرتے کرتے تھک جاؤ تو اللہ کے آگے رو لو اگر رونا کافی نہ ہو تو ام المومنین اور صحابیات کی حالات زندگی کو پڑھو۔۔۔
یقین کرو صبر آسان ہو جائے گا
” آپ نے کہا میں اجنبی ہو گئی ہوں ـــ
تو بیٹا سنو !
میرے پیارے نبی نے فرمایا تھا
اسلام پہلے اجنبی تھا
عنقریب یہ پھر اجنبی ہو جائے گا
اور سلام ہو ان اجنبیوں پر “

وہ میری بات خاموشی سےسنتے ہوئے مسلسل اپنے ہاتھوں کو گھور رہی تھی۔تب ہی اچانک اس نے میری جانب دیکھا۔
بڑی، بڑی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے
” کیا سچ میں ــــ سلام ہے ہم اجنبیوں پر ـــ”
“ہاں بالکل ـــ” میں نے جوش سے گردن کو بھی اوپر نیچے حرکت دی۔
اس پر اسنے میرے کندھے پر سر رکھ کر زور، زور سے رونا شروع کر دیا۔
اور میں نے۔۔۔۔اسے رونے دیا کہ!
“ندامت کے آنسو” بہ جائیں تو ہی اچھا ہے۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں