24

عصر جدید کا تقاضا ،سکولوں میں فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم /تحریر/عبدالرحیم عزم ؔ

ملک و قوم کی بہتری کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اب اس تصور کو بدلتی دنیا کے ساتھ بدل لیا جائے تبھی ہم معاشی و معاشرتی ترقی و استحکام کی منزل مراد کو پہنچ پائیں گے ۔ طلبا کو اس جانب راغب کر نے کے لیے ان میں شعور پیدا کیا جائے کہ فنی و پیشہ ورانہ تعلیم سے خود روزگار کے مواقع حاصل کرنا ہی عصر جدید کا تقاضا ہے ۔اس مقصد کے لیے کالجوں کی طرح اسکولوں میں بھی فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کا آغاز ہونا چاہیے۔ اسکولوں میں عمومی تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبا کو فنی و پیشہ ورانہ تعلیم کی سہولت بھی فراہم کی جائے تاکہ وہ تعلیم مکمل کریں یا ادھوری چھوڑیں۔ اسکول ، کلیات و جامعات سے نکلنے کے بعد کاغذ کے ان ٹکڑوں کو لے کر دربدر نہ ہوں بل کہ خود روزگار کمانے کے قابل ہوں ۔

اللہ عزوجل نے انسان کو ارضی و عارضی حیات کی جملہ ضروریات کی تکمیل کے لیے زیور علم سے مزین کرکے دنیا میں بھیجا اور انسان نے اس کے ذریعے علوم و فنون کی نئی راہیں تلاش کیں جس سے علوم کے نئے نئے شعبے وجود میں آئے ۔ ہر شعبہ اپنی جگہ یکساں اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ اس سے انسان کا تعلق بالواسطہ یا بلا واسطہ ہر دو صورت میں ہے لیکن مختلف شعبہ ہائے علوم میں سے فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کے شعبہ کی اہمیت ازل سے قائم و دائم اور سب سے بڑھ کر ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا براہ راست تعلق حیات انسانی کے امور روزگار سے ہے اور اسی پر انسانی تہذیب و تمدن کی ترقی و خوش حالی کا دارو مدار ہے ۔اسی بات کے پیش نظر اس فانی دنیا کے ہر ملک میں اس شعبہ تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے،ہر طرح کے ادارے قائم کیے جاتے ہیں تاکہ ملکی معیشت کا پہیا ترقی و استحکام کی جانب گامزن رہے ۔ وطن عزیز میں بھی اس مقصد کے پیش نظر فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کے کالج مختلف علاقوں میں قائم ہیں جہاں سے طلبا فارغ التحصیل ہو کر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خدمات انجام دے رہے ہیں جو کہ ملکی ترقی اور معاشی استحکام کے لیے ایک خوش آئند بات ہے لیکن اس کے باوجود پیارے وطن میں بے روز گاری کا ہوش رُبا طوفان بپا ہے ۔ روزگار کی فراہمی و دستیابی کی اس گراوٹ کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ان مخصوص اداروں میں طلبہ کی ایک مخصوص تعداد ہی داخلہ لیتی ہے جب کہ اکثریت عمومی تعلیم کو اہمیت و ترجیح دیتی ہے۔حالاں کہ عمومی تعلیم میں بعض نصابی و غیر نصابی نقائص کی وجہ سے طلبا سولہ یا بیس سالہ اعلیٰ تعلیم کے باوجود بھی اپنی احتیاجاتِ حیات کی تکمیل اور عملی زندگی میں اس سند سے خود روزگار کے لیے ایک فی صد بھی استفادہ یا عملی مدد حاصل نہیں کرپاتے یعنی عمومی تعلیم طلبا کو نصابی کامیابی کا اعلیٰ اعزاز تو بخشتی ہے لیکن عملی زندگی میں خود روزگار دینے سے قاصر ہے ۔طلبا بی ایس ، ایم فل کر کے بھی خود روزگار کے میدان میں ناکامی کے مرتبہ سفلیہ پر فائز ہوتے ہیںاور اس صورت حال میں یہ سند ان کے لیے محض کاغذ کے ایک ٹکڑے کی حیثیت رکھتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجیے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں نصاب کے اعلیٰ درجے کے حفاظ تیار کیے جاتے ہیں جنھیں نصاب کا تو ایک ایک جزو ازبر ہوتا ہے لیکن عملی زندگی میں خود روزگار کے لیے وہ ان کے کسی کام کا نہیں ہوتا ۔یوں شرح تعلیم بڑھنے کے باوجود بے روزگاری کی شرح بڑھ رہی ہوتی ہے جو ملکی ترقی کے لیے ایک ناسور ثابت ہوتی ہے ۔ دوسری وجہ عالم گیر نوعیت کی ہے کیوں کہ پوری دنیا میں فنی و تکنیکی آلات اور برقی آہنی خود کار افرادی قوت کے زیادہ سے زیادہ استعمال کی وجہ سے انسانی افرادی قوت کے لیے روزگار کے سرکاری و غیر سرکاری سطح پر مواقع کم ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے عمومی تعلیم کے حامل طلبہ کے لیے سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں روزگار یا ملازمت کا حصول نا ممکن کے قریب تر پہنچ چکا ہے ۔ تیسری اہم وجہ کا اطلاق شاید صرف پاک و ہند میں ہوتا ہے کیوں کہ ہمارے ہاں من حیث القوم ایک تصور راسخ ہے جو کہ سامراجی دور کی یادگار ہے ،وہ ایک سم قاتل کی طرح ذہنوں میں سرایت کر چکا ہے اور ہم اس سے نکلنے بچنے کی کوشش بھی نہیں کرنا چاہ رہے ، وہ ہے ’’ سرکاری ملازمت کا حصول ‘‘۔ہمارے زیر تعلیم اور فارغ ا لتحصیل طلبہ کی نوے فی صد تعداد کا مقصدِ تعلیم ہی سرکاری نوکری کا حصول ہے جس کی وجہ سے خود روز گار کے حصول کا شعور اور تصور پروان ہی نہیں چڑھ رہا ،جب کہ عالمی کساد بازاری اور ملکی معاشی عدم استحکام کی وجہ سے وسیع سطح پرسرکاری روزگار کے مواقع پیدا کرنا کسی بھی سرکار کی بس کی بات نہیں رہی یوں معماران قوم کی اکثریت بے روزگاری کے عفریت کے بے رحم پنجوں میں جکڑے جانے کی وجہ سے ناپسندیدہ ذرائع روزگار اپنانے پر مجبور ہو جاتی ہے جس کا ہر دو صورت میں ملک و قوم کو نقصان ہوتا ہے ۔ اب جب کہ پوری دنیا جدید فنی و تکنیکی انقلابات کی بنا پر بدلائو کا شکار ہے ۔ اس لیے زمانے کے ہم قدم چلنے کے لیے ہمیں بھی اس بدلائو کی گنگا میں نہانے کا کوئی گناہ نہیں۔ اگر ہماری نوجوان نسل صرف سرکاری ملازمت کے حصول کے تصور سے سر مو انحراف کرنے کو تیار نہیں ہوتی تو اقوام عالم ہمیں ترقی کے بھاری بھرکم قدموں تلے روندتے ہوئے کچل ڈالیں گی اور ہم غار کے زمانے کے قریب تر پھینک دیے جائیں گے ۔ ملک و قوم کی بہتری کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اب اس تصور کو بدلتی دنیا کے ساتھ بدل لیا جائے تبھی ہم معاشی و معاشرتی ترقی و استحکام کی منزل مراد کو پہنچ پائیں گے ۔ طلبا کو اس جانب راغب کر نے کے لیے ان میں شعور پیدا کیا جائے کہ فنی و پیشہ ورانہ تعلیم سے خود روزگار کے مواقع حاصل کرنا ہی عصر جدید کا تقاضا ہے ۔اس مقصد کے لیے کالجوں کی طرح اسکولوں میں بھی فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کا آغاز ہونا چاہیے۔ اسکولوں میں عمومی تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبا کو فنی و پیشہ ورانہ تعلیم کی سہولت بھی فراہم کی جائے تاکہ وہ تعلیم مکمل کریں یا ادھوری چھوڑیں۔ اسکول ، کلیات و جامعات سے نکلنے کے بعد کاغذ کے ان ٹکڑوں کو لے کر دربدر نہ ہوں بل کہ خود روزگار کمانے کے قابل ہوں ۔ چند عشرے قبل اسکولوں میں فنی و پیشہ ورانہ تعلیم کا آغاز کیا گیا لیکن شومئی قسمت سے وہ انقلابی منصوبہ سازشی عناصر کی بھینٹ چڑھ گیا اور ہماری نسل محرومیوں کا شکار رہی ۔ اب بھی وقت ہے کہ ارباب اختیار کو ہوش کے ناخن لینے چاہییں اور اسکولوں میں فنی و پیشہ ورانہ تعلیم کے سلسلہ کو بحال کیا جائے ، اس مقصد کے لیے مزید ادارے بھی قائم کیے جائیں ۔ اس نیک مقصد کو ثمر آور بنانے کے لیے طلبا کوہنر یا پیشے کی کل وقتی عملی مشق کی سہولت بہم پہنچانے کے لیے مقامی سطح پر ان پیشوں سے وابستہ افراد، اداروں، تاجروں اور کمپنیوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ طلبا کو اول وقت میں پیشہ یا ہنر کے عملی کام کی سہولت فراہم کریں تاکہ وہ اپنے ہنر میں پختگی اور مہارت حاصل کریں یوں چند سال بعدہر طالب علم اس قابل ہو گا کہ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ایک ماہر ہنر مند یا پیشہ ور ہو گا جس سے مقامی و غیر مقامی سطح پر نہ صرف افرادی قوت پوری ہو گی بل کہ بے روزگاری کی شرح کافی حد تک نیچے آجائے گی، ملکی معاشی و معاشرتی ترقی بھی ہو گی۔ ہمارے نوجوان ایک خود مختار، باروزگار ،با عزت اور تربیت یافتہ فرد کی زندگی گزارنے کے قابل ہوں گے نیز عالمی سطح کی افرادی قوت کے تقاضوں کو پورا کر کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کا موجب بھی ہوں گے ۔ اسکول کی سطح پر فنی و پیشہ ورانہ تعلیم کی رائے پیش کرنے کے سبب کے گواہ اسکولوں کی ثانوی تعلیم کے نتائج ہیںکہ طلبا کی اکثریت عمومی تعلیم کے شعبوں میں خصوصاً سائنس مضامین میں ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی یا بھیڑ چال کے داخلہ لے لیتی ہے جب کہ انھیں اس میں رغبت و دل چسپی نہیں ہوتی یا ان کی ذہنی سطح اس کے برابر نہیں ہوتی جس کی وجہ سے تقریباً ساٹھ فی صد طلبا ناکام ہو کر ضائع ہو جاتے ہیں اور بے روزگاری کی شرح میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ ثانوی سطح پر داخلے کے وقت طلبہ کے لیے جرمنی ،جاپان اور چین جیسے ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر مڈل کی تعلیم کے بعد ایک رجحاناتی جائزہ رکھا جائے اور اس کے نتائج کے مطابق طلبہ کو فنی و پیشہ ورانہ تعلیم دی جائے ۔ عملی مشق کے لیے کاروباری اور پیشہ ورانہ مراکز میں سہولت دی جائے تاکہ یہ طلبا تعلیم کے ساتھ ہنر، فن یا پیشہ کو عملی طور پر بھی سیکھ لیں اور عملی زندگی میں بے روزگاری کے بے رحم عفریت

سے بچ جائیں اور ملکی ترقی کے لیے ایک مفید اور اہم رکن کے طور پر کام کریں ۔ اسی طرح دینی مدارس کے طلبہ کو بھی کوئی ہنر ، فن یا پیشہ سیکھنا لازمی قرار دیا جائے اوراس سے متعلقہ جملہ سہولیات کو یقینی بنایا جائے ۔ بقول ایک مفکر دینی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو کوئی ہنر یا فن لازمی سیکھنا چاہیے تاکہ وہ فارغ التحصیل ہو کر دین نہ بیچیں بل کہ اپنے ہنر یا فن سے روزگار کمائیں ۔
ذیل میں اہم فنون اور پیشوں کی ایک فہرست بطور مثال پیش کرتا ہوں جن کے عملی کام یا مشق کی سہولت حکومت طلبا کو مقامی افراد ،اداروں اور کمپنیوں سے آسانی سے فراہم کر سکتی ہے ۔ ان پیشوں کی اسکول سطح پر تعلیم سے نئی نسل کو نہ صرف روزگار ملے گا بل کہ اشیا و خدمات پیش کرنے کا ایک مسابقتی میلان و رجحان پیدا ہو گا جو کہ ملک میں معاشی ،معاشرتی ترقی کا ایک انقلاب لے آئے گا ۔ ان شا ء اللہ
۱۔ وہ پیشے جنھیں عموماً تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے انھیں بھی پیشہ ورانہ تعلیم میں شامل کیا جائے مثلاً درزی، حجام ، دھوبی ،موچی، موٹر مکینک، الیکٹریشن، ویلڈر، پلمبر،ڈرائیور، مستری وغیرہ
۲۔جدید فنون اور پیشے مثلاً کمپیوٹر سے وابستہ پیشے ۳۔برقی آلات سے وابستہ ہنر یا پیشے ( گھریلو و کاروباری )،۴۔ زراعت سے وابستہ ہنریا پیشے (زرعی آلات، مشینری بنانا،اجناس سے مختلف اشیا بنانا،)،۵۔طب سے وابستہ پیشے( مثلاً ادویات، آلات جراحت ،طبی معاون آلات ،مصنوعی اعضا بنانا وغیرہ)۶۔ مواصلات ، رسل و رسائل و ابلاغ سے وابستہ پیشے
۷۔ذرائع آمد و رفت سے وابستہ پیشے۸۔ ظروف سازی (دھات، لکڑی، مٹی ،ربر ہر چہار طرز سے برتن بنانا)۹۔ دھات ،لکڑی ،مٹی ،ربر سے دیگر اشیا بنانا۱۰۔ برقی سامان بنانے کے پیشے
۱۲۔ مشینی پرزہ جات بنانے یا جوڑنے سے متعلق پیشے ۱۳۔کپڑے کی صنعت کے پیشے ۱۴۔کھیلوں کا سامان بنانا ۱۵۔کھلونا سازی وغیرہ وغیرہ
مذکورہ بالا پیشوں سے وابستہ اور بھی بہت سے کام اور ہنر ہیں جن سے ابھی تک ہماری نئی نسل پوری طرح آگاہ نہیں حالاں کہ دنیاانھی کو جدید خطوط پر استوار کر کے ترقی کی منازل طے کررہی ہے جب کہ ہمارے بچوں میں قابلیت کی کوئی کمی نہیں، بس کمی ہے تو مواقع اور راہنمائی کی جسے اسکولوں میں فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم عام کر کے آسانی سے فراہم کیا جا سکتا ہے ۔ اس کی واضح اور راہنما مثال ہمارے دوست ملک چین کی ہے جس نے قوم کے ہر فرد کو ہنر مند ، کاری گر بنا کر کار آمد اور مفید شہری بنایا اسے اپنے ہاتھ سے عزت سے کما کر جینا سکھایا اور آج دنیا کی معیشت پر چھا رہا ہے ۔ دوسری جانب ہمارے ہاں مفت کی کھانے کی عادت ڈالنے کے لیے بعض ایسے پروگرام شروع کیے گئے جن سے قوم کے بچے، نوجوان ، بزرگ (مرد، عورت) مستحق ، غیر مستحق سبھی سوالی بنے لمبی قطار میں کھڑے امداد کے منتظر نظر آتے ہیں جوانھیں خود روزگار کی سوچ، فکر سے کوسوں دورلے گئی اور ہم من حیث القوم فقیر پیدا کرنے والے ملک کے باسی بن گئے ۔اس سلسلہ میں اپنی ایک ادنٰی سی رائے کی جسارت کر رہا ہوں کہ اگر وہی امدادی رقم ہم نے ملک میں گھریلو، چھوٹی اور بھاری صنعت پہ ہر سال لگائی ہوتی اور انھی امداد کے منتظر افراد کو ہی ان صنعتوں میں روز گار دیا ہوتا تو آج صورت حال مختلف ہوتی ۔ہم بھوکے کو مچھلی تو دے دیتے ہیں لیکن مچھلی پکڑنے کا طریقہ سکھانے اور سامان فراہم کرنے سے قاصر ہیں اور شاید یہی ہماری تنزلی کا سبب ہے ۔اس تنزلی اور گراوٹ سے نکلنے کے لیے اسکولوں میں فنی و پیشہ ورانہ تعلیم وقت کا عین تقاضا ہے اس سے یقیناً بھوکے کو مچھلی پکڑنے کا طریقہ اور سامان دونوں مل جائیں گے اورہمارا ملک بھی مضبوط معیشت کا حامل ایک لکھو کے ساتھ لکھومضبوط ملک بن سکے گا ۔ ان شا ء اللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں