آج ایک بہت ہی اہم مسئلہ کی طرف آپ کو متوجہ کرنے لگا ہوں جس کی لپیٹ میں آج اسکول، کالجز، یونیورسٹیز،کے ساتھی تو ملوث ہیں ہی افسوس سے کہنا پڑھ رہا ہے ہمارے مدارس والے بھی اس غلامی کے جال میں پھنستے چلے جا رہے ہیں یہ بھی غلامی کے اسباب میں سے ایک بہت بڑا سبب ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے کسی کو فون پر پیغام دینا ہوتا ہے بذریعہ میسیج تو ہم انگلش فونٹ استعمال کرتے ہیں حالانکہ ہمیں چاہیے کہ ہم اردو فونٹ استعمال کریں اور دوسروں تک اردو پیغامات پہنچائیں اس لیے کہ ہماری قومی زبان اردو ہے ہمارا آج سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ الفاظ اردو کے ہوتے ہیں اور رسم الخط انگریزی ہوتا ہے اور یہ رسم الخط تو وہ چیز ہے کہ آرنلڈ ٹوائن بی جو اس زمانہ کا بڑا فلسفی مؤرخ ہے، اس نے لکھا ہے کہ اب کسی کتب خانہ کو آگ لگانے کی ضرورت نہیں، رسم الخط (Script) بدل دینا کافی ہے اس سے اس قوم کا رشتہ اپنے ماضی سے بالکل ٹوٹ جائے گا اور اس کی پوری تہذیب اس کے لئے بے معنی ہو کر رہ جائے گی اور پھر جس طرف چاہو لے جاؤ جو چیز کسی ملت کو اس کے ماضی سے اس کے مذہب سے اس کی تہذیب سے اس کے کلچر سے ملاتی ہے وہ رسم الخط ہے رسم الخط بدلا نسل بدل گئی آج پاکستان میں یہی ہو رہا ہے فرقہ وارانہ فسادات محض ملک کو بدنام کرتے ہیں فائدہ ان کا کچھ نہیں ہے تعلیم کا نظام بدلنا کافیہے آج سے ساٹھ برس پہلے *اکبر مرحوم نے کہا تھا* **اکبر مرحوم کا قول اب مجھے یاد آتا ہے* *دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے** ایک طویل المیعاد منصوبہ بندی ہے ذرا دیر لگے گی تیس برس چالیس برس میں خود ایک ایسی نسل تیار ہو جائے گی جس کے نزدیک کفر و ایمان کا فرق توحید و شرک کا فرق عقائد و مذاہب کا فرق سب بے معنی باتیں ہو جائیں گی کچھ کرنا نہیں پڑے گا۔یاد رکھیئے! اگر ایسا ہی چلتا رہا تو پھر بہت بڑا نقصان ہمیں اٹھانا پڑے گا اور اٹھا بھی رہے ہیں۔ *خدارا اس کی طرف توجہ دیں اور دوسروں کو بھی دلائیں اور اس غلامی کے طوق کو اپنی گردن سے اتار پھینکیں* آپ بھی آئیے اور ہمارا ہاتھ بٹائیے۔ *”يزدكم قوة الى قوتكم”*

- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل