41

نقل/ایک سعادت/تحریر/پروفیسر روحان دانش

اگر میں ایسا نہ کروں تو کلاس میں سب کے سامنے ڈانٹ، بے عزتی اور ساتھ ہی “آؤٹ فرام دا کلاس” کا حکم مل جاتا ہے۔ اور میری عزت افزائی (طنزا) کا یہ سلسہ یہاں پر ہی بس نہیں ہوجاتا، “ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں” کے مصداق گھر پہنچو تو پہلے مما کے سوالات اور پھر بابا !!
بابا تو ایسی بے عزتی کرتے ہیں کہ مجھے خود سے گھن آنے لگتی ہے۔‘‘ آٹھویں جماعت کا طالب علم صائم میرے اس سوال پر کہ’’ آپ نقل کیوں کرتے ہیں؟‘‘ یوں اپنا غم مجھ سے بانٹ رہا تھا۔
اور اس نے مجھے یہ سب یوں ہی فورا سے نہیں کہ دیا تھا، مجھے اس کے لیے صائم کے ساتھ کچھ وقت گزارنا پڑا۔ حکمت سے کافی تگ و دو کے بعد اب جب اس کی میری ساتھ کسی حد تک وابستگی ہو گئی تو وہ اپنا حال مجھ سے کہ رہا تھا۔
میں ششدر تھا، تیرہ سالہ یہ بچہ جسے استاد “نکمّا” اور والدین خاندان میں ان کی “ناک” کٹوا دینے کا الزام دیتے ہیں کیسے برجستہ “ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں” جیسے ایک ثقیل مصرعے کو برمحل اپنی گفت گو کا حصہ بنا رہا تھا۔ گویا ممکن ہے اس بچے کی قدرتی ذہانت “ادب” ہو مگر اس ذہنی تناؤ اور الجھن کے سبب اب وہ امتحانات میں آرٹس تک میں کارکردگی دکھانے کے قابل نہ رہا تھا۔
” میں مانتا ہوں میرے نمبر کم آتے تھے، مگر کسی نے آج تک مجھ سے یہ نہ پوچھا، کہ میرے نمبر کم کیوں کر آ ئے؟ مجھے سبق کی سمجھ نہیں آئی یا استاد کے پڑھانے ،سمجھانے کا طریقہ میرے ذہن یا ذہنی سطح سے ہم آہنگ نہ ہو پایا۔ یا شاید میں اس خوف و دباؤ میں تھا کہ امی نے کہنا ہے کہ تمھاری خالہ کے بیٹے کو دیکھا 95 ٪۔۔۔۔ہمیشہ 95 ، 96 ٪ ہی لاتا ہے اور بابا نے کہنا ہے تمھاری پھوپھو کی بیٹی ہمیشہ کلاس میں اول آئی ہے اور ایک تم ہو کہ ہمیں کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔” کچھ دیر خاموش رہنے اور زمین پر ٹکٹکی باندھے صائم پھر سے بولا تھا۔
آپ کی شکایت بالکل درست ہے صائم بیٹا ! مگر یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ نقل بددیانتی ہی نہیں، ایک جھوٹ بھی ہے۔ اور جھوٹ شاید فوری فائدہ تو دے دیتا ہے مگر اس کی زندگی بہت مختصر اور نتیجہ بد ہی رہتا ہے۔ امتحان میں نقل سے انسان والدین، اساتذہ یا اسکول سے پہلے تو خود کو ہی دھوکہ دے رہا ہوتا ہے۔ اور یوں وہ حقیقی علم اور بہتری سے دور رہ کر سکول اور بعد ازاں کالج، یونیورسٹی میں پہنچ کر بھی بری طرح ناکام رہتا ہے۔ ’’نقل ایک سعادت ‘‘ اور خوش بختی کی علامت ہو سکتی ہے ، اگر یہ نقل اچھے اور خیر کے کاموں میں بڑوں کی ہو، بزرگوں کی ہو۔ ہمارے اَسلاف، صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور سب سے بڑھ کر ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی ہو۔
’’تو آپ ہی بتائیں میں کیسے اس صورت حال سے نمٹوں، مجھے کیا کرنا چاہیے؟ کیا میں اس پر راضی ہو جا ؤں کہ سب مجھے بے عزّت کرتے اور ہمہ وقت ڈانٹے رہیں!‘‘ صائم نے گویا اب کہ ایک بے بسی سے سوال کیا تھا۔
نہیں، صائم بالکل نہیں ! میں ایسا بالکل نہیں کہ رہا۔ اِ س صورت حال سے نکلنے کے لیے میرے پاس آپ کے لیے ایک خوش خبری ہے۔
۱ % فارمولا۔۔۔!
’’۱ % فارمولا؟‘‘ صائم پُر تجسُّس اور سوالیہ نظروں سے میری جانب دیکھ رہا تھا۔
۱ % فارمولے کا مطلب ہے روزانہ ایک ایک قدم آگے بڑھنا اور سیکھنا، اس میں کچھ وقت لگے گا مگر آپ برداشت اور ہمّت سے ایک ایک لفظ، ایک ایک جملہ سیکھ کر آگے بڑھتے رہیں تو تین سے چھے ماہ میں آپ کے نتائج میں 6 گنا سے بھی زیادہ بہتری آ جائے گی۔ یعنی اپنی تعلیمی بہتری کے لیے آپ کے یہ چھوٹے چھوٹے مگر مستقل قدم کل ایک بڑی اور حقیقی کامیابی کی صورت آپ کے سامنے ہوں گے۔
مثال کے طور پر آپ انگلش یا اردو کے روز5 نئے الفاظ سیکھتے ہیں ، 10 منٹ ریاضی کو دیتے ہیں ،5 منٹ سائنس کو دیتے ہیں تو ایک سال کے عرصے میں آپ 1850 انگلش اور اردو کے نئے الفاظ جان چکے ہوں گے، 60 گھنٹے کے برابرریاضی اور 30 گھنٹے سائنس کے مضمون پر دسترس ہو چکی ہو گی ۔
میرے محترم اساتذہ اور والدین ! یقینا امتحانات میں نقل کے اثرات نہایت نقصان دہ ہیں۔ تعلیمی عمل میں نقل بچوں کی خود اعتمادی کو کمزور کرتی ہے اور ان کے تعلیمی معیار کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اور بچوں کی اصل صلاحیتوں کو پروان نہیں چڑھاتی۔ اخلاقی لحاظ سے بچوں کی دیانتداری اور ایمانداری ختم ہوجاتی ہے۔ اور وہ جھوٹ بولنے، دھوکہ دینے سی عادتیں اپنا لیتے ہیں۔ اور ان کی ساتھ ساتھ پروان چڑھتی ان کی یہ عادتیں نہ صرف یہ کی ان کی پیشہ ورانہ زندگی بل کہ سماجی رشتوں میں بھی سنگین مسائل کا سبب بن سکتی ہیں۔
شریعتِ اسلام میں چور کی سزا ہاتھ کاٹنا مقرر ہے مگر حضرت عمر فاروق ؓ نے ایک غلام شخص جس کے مالک نے اسے بھوکا رکھا اور اس نے اپنی بھوک کے سبب چوری کی، اس کا یہ جرم ثابت ہونے کے بعد بھی نہ صرف یہ کہ اس سے ہاتھ کاٹنے کی سزا کو ساقط کیا بل کہ اس کے مالک پر جرمانہ کیا۔
خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق جنہیں غیر مسلم اور مغربی مفکرین بھی دنیا کے حکمرانوں میں ایک عظیم مصلح (Reformer) گردانتے ہیں۔ اور جن کے عوامی فلاح و بہبود کے کئ ایک اقدامات کو آج کی جدید اور مغربی دنیا میں بھی “عمر لاء” کے طور پر جانا جاتا ہے مجھے یقین ہے اگر آج وہ حیات ہوتے تو اولاََ ایسے حالات ہی نہ بنتے۔ ثانیاََ طلبہ کے امتحانات میں نقل کے اسباب کا سدِّ باب درست طریقے سے نہ کرنے بل کہ اِس اجتماعی غفلت پر وہ تمام والدین اور اساتذہ پر بھاری جرمانہ عائد کرتے۔
بطور والدین، اساتذہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کی حقیقی صلاحیتوں کو پہچان کر ان کے مطابق انھیں آگے بڑھنے کے مواقع دیں۔ ہر بچہ منفرد ہے۔ بچوں کا موازنہ کرنا انتہائی غلط ہے، موازنے کا مطلب گویا ہم مچھلی سے توقع کر رہے کہ وہ دیکھو بلی کو کیسے مہارت سے درخت پر چڑھ رہی ہے یا بلی سے مخاطب ہوں کہ مچھلی کو دیکھا ہے تیرتے ہوئے اسے تو ڈر نہیں لگتا اور ایک تم ہو کہ سکھا سکھا کر تھک چکے مگر او بلی ! مجال ہے جو ہماری اتنی کوشش اورتمھیں بارہا بتانے سکھانے کے باوجود تم ایک قدم بھی تیراکی سیکھ پائی ہو۔ میرے محترم والدین اور اساتذہ کرام اس سارے تناظر میں آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ غلط کون ہے ؟
لہذا میں پھر عرض کروں گا کہ ہمیں چاہیے کہ بجائے بچوں پر تعلیمی دباؤ کے ہم ان کی حقیقی صلاحیتوں کی پہچان کریں۔ انہیں خود اعتمادی دلائیں اور محنت کی اہمیت بتائیں۔
یہاں اساتذہ کا کردارمقابلتاََ زیادہ اہم ہے۔ اساتذہ کو چاہئے کہ وہ طلبہ کی نفسیات کو جانیں، طلبہ کے فطری مزاج کو سمجھتے ہوئے انہییں سکھانے کے مختلف اور جدید انداز (Teaching Styles) اختیار کریں۔ ہر ہر بچے کی حقیقی صلاحیت (intelligence) کو پہچانیں، اور اگر بچوں کے سیکھنے کے عمل میں انہیں کچھ انفرادی مسائل (Learning Disorders) کا سامنا ہو والدین اور اساتذہ دونوں باہم مشورے اور مل جل کر انفرادی توجہ اور وقت دیں تو جلد ہی ایسا بچہ پورے اعتماد اور خوشی کے ساتھ معمول کے مطابق آگے بڑھنا اور بڑھتے چلے جانا سیکھ لے گا۔ اور اس سب کے ساتھ والدین اور اساتذہ کو اپنے قول اور عمل سے طلبہ کی اخلاقی تربیت اور انہیں دیانتداری کی تعلیم دینا بھی لازم ہے۔
دوسری جانب حکومت اور تعلیمی اداروں کو چاہئے کہ وہ نصاب کو جدید دور سے ہم آہنگ،عملی، دلچسپ اور آسان بنائیں۔ امتحانی نظام میں بہتری لائیں ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ نصاب کے ساتھ ساتھ امتحانات کے طریقہ کار کو بھی تبدیل اور دور ِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور زیادہ تحقیق و تخلیقی سوچ پر مبنی ہونا چاہیے۔مزید برآں دورانِ امتحان سخت نگرانی کے ساتھ ساتھ نقل روکنے کے لئے جدید طریقے (Techniques)
بھی اپنائے جانے چاہییں۔
القصہ مختصر نقل کا مسئلہ ہمارے تعلیمی نظام میں بلاشبہ ایک ناسور اور ہمارے بچوں کے مستقبل کا گہن ہےاور اس کا حل والدین، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کی مشترکہ عملی اقدامات سے ہی ممکن ہے۔ تبھی ہم بطور والدین یا اساتذہ ایک دیانتدار، محنتی اور کامیاب نسل کی تشکیل کر پائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں