96

طاغوت کیا ہے ؟ طاغوت کا انکار ضروری ہے ؟/تحریر/عذرا خالد

اللّٰہ پر ایمان اور طاغوت سے انکار لازم ملزوم، ایمان کے لغوی معنی تصدیق کرنے،سچا ماننے کے ہیں۔

ایمان عربی زبان کا لفظ ہے۔ شرعی معنوں میں دل سے یقین، زبان سے اظہار، جسمانی طور پر عمل کا نام ایمان ہے جب کہ اطاعت سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور نا فرفانی سے ایمان کمزور ہوتا ہے یا اس میں کمی ہو جاتی ہے۔ ایمان قلب و باطن کی اس کیفیت یاحالت کا نام ہے جس میں قلب و باطن دنیا کی محبت سے خالی اور ﷲ کی محبت سے معمور ہو۔ اس کی وضاحت درج ذیل حدیث مبارکہ سے ہوتی ہے :
’’حضرت حارث بن مالک انصاری رضی ﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ وہ حضور ﷺ کے پاس سے گذرے تو آپ ﷺ نے ان سے پوچھا : ’’اے حارث! (سناؤ) تم نے صبح کیسے کی؟ انھوں نے عرض کیا : یا رسول ﷲ ! میں نے ایمان کی حقیقت پاتے ہوئے صبح کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اے حارث! غور کر کے بتاؤ تم کیا کہہ رہے ہو؟ بے شک ہر شے کی ایک حقیقت ہوتی ہے، تمہارے ایمان کی کیا حقیقت ہے؟ عرض کیا : یا رسول ﷲﷺ ! میں نے اپنے نفس کو دنیا کی محبت سے جدا کر لیا ہے اور راتوں کو جاگ کر عبادت کرتا ہوں اور دن کو (روزے کے سبب) پیاسا رہتا ہوں گویا میں اپنے رب کے عرش کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں اور مجھے ایسے لگتا ہے جیسے جنتی ایک دوسرے کی زیارت کرتے جا رہے ہیں اور دوزخیوں کو (اس حالت میں) دیکھتا ہوں کہ وہ ایک دوسرے پر گر رہے ہیں۔ حضور ﷺ فرمایا : اے حارث تم عارف ہو گئے، پس اس (کیفیت و حال) کو تھامے رکھو اور یہ (جملہ) آپ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا۔ ‘‘
طاغوت، عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے لفظی معنی ہیں، بت، جادو، جادوگر، گمراہوں کا سردار (ابلیس)، سرکش، دیو اور کاہن۔ قرآن کریم میں یہ لفظ ٨ مرتبہ استعمال ہوا ہے.
شرعی اصطلاح میں طاغوت سے مراد خاص طور پر وہ شخص ہے، جو ارتکاب جرائم میں ناجائز امور میں اپنے گروہ کا سرغنہ یا سربراہ ہو۔
طاغوت کا اطلاق کاہن اور شیطان پر بھی ہوتا ہے اور اس شخص کو بھی طاغوت کہتے ہیں جو کسی گمراہی کو پھیلانے کا کام کررہا ہو ۔
اسلامی اصطلاح میں اس کی مذید وضاحت اس طرح سے بھی کر سکتے ہیں کہ طاغوت سے مراد وہ حاکم یے جو قانون الہی کے علاوہ کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور وہ نظام عدالت بھی اسی میں آتا ہے، جو نہ تو اقتدار اعلی یعنی ﷲ کا مطیع ہو اور نہ ﷲ کی کتاب کو سند مانتا ہو۔ لہذا قرآن مجید کے حوالے سے ہے کہ جو عدالت طاغوت کی حیثیت رکھتی ہے، اس کے پاس اپنے معاملات فیصلہ کے لیے، لے کر جانا ایمان کے خلاف ہے۔
قرآن کی رو سے ﷲ پر ایمان اور طاغوت سے کفر یعنی انکار دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ کیونکہ قرآن توحید کا مذہب ہے اور اگر خدا اور طاغوت دونوں کے سامنے سر جھکایا جائے تو ایمان کی بنیادی شرط پوری نہیں ہوتی۔
سورہ بقرہ اور سورہ نحل کی آیات سے واضح ہے کہ طاغوت کا انکار کرنا اور اس کی دعوت سے بیزاری اختیار کرنا ایمان کا حصہ ہے۔ رب العزت کی تنبیہ سے واضح ہے کہ اگر کوئی فرد انفرادی طور پر طاغوت کے راستے پر چلتا ہے تو ﷲ تعالیٰ اس سے بہت ناراض ہوتا ہے۔ یہ حکم سورہ بقرہ کی آیت کی روشنی میں مزید واضح ہو جاتا ہے جس میں ﷲ نے مومن کے لیے اپنی ولایت اور غیر مومن کے لیے طاغوت کی ولایت کا ذکر فرمایا ہے اور طاغوت کی عبادت کو ترک ایمان قرار دیا ہے۔
سورہ نساء میں ارشاد ہے کہ:
کیا تم نے وہ نہ دیکھے جن کو کتاب کا ایک حصہ ملا ایمان لاتے ہیں بت اور شیطان پر اور کافروں کو کہتے ہیں کہ یہ مسلمانوں سے زیادہ راہ پر یہی ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور جسے خدا لعنت کرے تو ہر گز اس کا کوئی یار نہ پائے گا۔
سورہ نساء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
جو لوگ ایمان لائے ہوئے ہیں وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں، اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ طاغوت کے راستے میں لڑتے ہیں۔ لہذا (اے مسلمانو) تم شیطان کے دوستوں سے لڑو۔ (یاد رکھو کہ) شیطان کی چالیں درحقیقت کمزور ہیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’جبت سے مراد جادو اور طاغوت سے مراد شیطان ہے۔‘‘ اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ پرندوں کو اڑا کر شگون لینا اور زمین پر لکیریں کھینچ کرفال گیری کرنا جبت میں شامل ہے۔ اور طاغوت سے مراد شیطان ہے اور ہر وہ شخص جو گناہ کی دعوت دے اس پر یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ عرب میں بتوں کے ترجمان ہوتے تھے، جو ان کی زبان سے جھوٹ نقل کرتے اور لوگوں کو گمراہ کرتے، ان کو طاغوت کہا جاتا تھا۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہے کہ:
یہودیوں کی رسول ﷺ سے مخالفت ہوئی تو انھوں نے مشرکین مکہ سے کہنے لگے کہ تمھارا دین مسلمانوں کے دین سے بہتر ہے۔ یہ سب کچھ اس حسد کی وجہ سے تھا کہ نبوت اور ریاستِ ہمارے سوا دوسروں کو کیوں مل گئی، اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ان کو الزام دیا۔
جو طاغوت پر ایمان لایا اور وہ اہل کتاب میں سے ہے وہ یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ وہ ہدایت پر ہے اور وہ ان میں سے ہے جو ایمان لائے۔ انسان پر لاذم ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں طاغوت پر ایمان نہ لائے۔ طاغوت کی حکومت کو ﷲ نے ناپسند فرمایا بلکہ ان کی مذمت کی ہے جو طاغوت کی طرف دعوت دیتے ہیں ان کے اس عمل کو کفر کے برابر کا درجہ دیا گیا ہے۔ﷲ تعالیٰ کسی بھی صورت میں مومن کے کافر کے ساتھ تعامل کو جائز قرار نہیں دیتا۔ مومن ﷲ کے راستے میں لڑتے ہیں اور غیر مومن طاغوت کے راستے میں لڑتے ہیں طاغوت کے لیے لڑنے والے شیطان کے دوست ہیں اور شیطان ﷲ کی زمین پر ﷲ سے دشمنی کرتا ہے۔
ﷲ تعالیٰ نے اسی فرمان کو سورہ مائدہ میں طاغوت کے بندے بن جانے والوں کی مذمت کی ہے اور ایسے لوگوں کو سب سے ناپسندیدہ قرار دیا ہے اور انہیں اہل جہنم کہا گیا ہے۔ ﷲ نے ایسے لوگوں کو اپنے رحمت سے خارج قرار دیا ہے اور یہ لوگ غضب خدا کے سزاوار ہیں اور یہ وہی ہیں جنہیں ﷲ نے خنزیر اور بندر قرار دیا۔
اللہ پر ایمان اور طاغوت سے انکار دونوں ایک مسلمان کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ جو شخص ان دونوں چیزوں پر عمل کرتا ہے وہ کامیاب اور فلاح پاتا ہے، اور جو شخص ان میں سے کسی ایک چیز سے بھی انکار کرتا ہے وہ گمراہ اور ناکام ہوتا ہے۔
طاغوت پرستی کی انتہاء آج کل لبرل ازم اور دہریت کے نام سے ہے، کہ ایک شخص کھلے عام اعلان کرتا اور اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ میں صرف وہی کروں گا جو مجھے اچھا لگے گا، اور میں کسی دین نام کی چیز کو نہیں مانتا۔ﷲ تعالیٰ ایسی شیطانی چال سے ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھے، اور ﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے فرمابندار بندوں میں شامل کر دے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں