9

جائیداد کے شعور کا عالمی دن/تحریر/پروفیسر عبد المعید زبیر

لوگوں میں کسی بھی معاملے میں شعور بیدار کرنے کے لیے اہل فکر مختلف مواقع پر، مختلف حیلے بہانوں سے ان تک اپنا پیغام پہنچانے کا عمل جاری رکھتے ہیں۔ تاکہ اصلاح و فلاح کی نیت سے معاشرے کے منفی پہلوؤں کو مثبت میں انداز میں حل کیا جا سکے۔ کچھ منفی چیزیں ہمارے معاشرے میں اتنی شدت سے سرایت کر چکی ہیں کہ دنیاوی و اخروی اعتبار سے ہمیں ان کے نقصانات کا ادراک ہی نہیں ہوتا۔ جن میں زن، زر اور زمین کے تنازعات بہت نمایاں ہیں۔ گھر، محلہ اور معاشرے کا امن انہی سے نتھی ہے۔ اگر ان معاملات میں لوگوں کو شعور دے دیا جائے تو معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
جائیداد کی تقسیم انہی معاملات میں سے ایک ہے۔ جس میں اول تو خواتین کو بالکل محروم رکھا جاتا ہے یا صرف خانہ پوری کی جاتی ہے۔ خواتین کے علاؤہ مردوں میں سے بھی جس کا جتنا زور لگتا ہے ، دوسروں کا حصہ ضبط کرنے کو چالاکی اور مہارت سمجھتا ہے۔
اس معاملے میں لوگوں میں شعور بیدار کرنے کے لیے 26اپریل کو جائیداد کے شعور کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ تاکہ لوگوں میں قانونی و فقہی اعتبار سے شعور پیدا ہو۔
جائیداد فارسی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی ملکیت، مال و اسباب، پیداوار وغیرہ ہیں کہ جن کے ذریعے حصول دولت ممکن ہو سکے۔ گویا کسی بھی شخص کی ملکیت میں تمام اشیاء جائیداد کے حکم میں آتی ہیں اگرچہ عرف عام میں اس کا اطلاق زمین پر ہوتا ہے۔ جب تک جائیداد کا مالک شخص زندہ ہو گا، تمام اشیاء اس کی ملکیت ہوں گی ، جس میں جیسے چاہے وہ تصرف کرے۔ کوئی اس سے سوال نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ وہ اپنی ذاتی ملکیت میں تصرف کر رہا ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ شریعت بلاوجہ ضائع کرنے کو اچھا نہیں کہتی کیوں کہ اس کی وفات کے بعد اس مال میں دوسروں کا حق متعلق ہوتا ہے۔
لہذا جائز معاملات میں جیسے اپنی زندگی میں اپنے بچوں کے درمیان دولت تقسیم کر دے ، یہ پسندیدہ عمل ہے تاکہ بعد میں کوئی فساد نہ ہو۔
یہاں یہ مسئلہ ملحوظ خاطر رہے کہ باپ کی زندگی میں اولاد جائیداد کی شرعی طور پر حق دار نہیں ہوتی۔ اگر باپ اپنی رضامندی سے تقسیم کرنا چاہے تو اولاد میں برابری کے طرز پر تقسیم کرے گا۔ یہ تقسیم ہبہ (گفٹ) کہلائے گی۔ اس تقسیم میں کسی بچے کے ساتھ کمی بیشی نہیں کر سکتا۔ مگر یہ کہ باپ کسی معقول وجہ سے ( غربت، دین داری یا خدمت) کی وجہ سے کسی کو کچھ حصہ زیادہ دینا چاہے تو اجازت ہے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے حضرت نعمان ابن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟ انہوں نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔
اگر باپ فوت ہو جائے تو اب جو جائیداد تقسیم ہو گی وہ شرعی اصولوں کے مطابق ہو گی۔ جس کا اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ “اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے……” اللہ تعالیٰ نے تمام کے حصے متعین کر دیے ہیں۔
ہمارے ہاں المیہ ہے کہ باپ کے بعد بھائی تو مال و دولت تقسیم کر لیتے ہیں البتہ بہنوں سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ حصہ لیں گی یا نہیں ؟ کیا کبھی کسی نے بھائی سے پوچھا کہ وہ حصہ لے گا یا نہیں ؟ تو عورت کو اس کا حق دینے کے لیے اس سے پوچھا ہی کیوں جاتا ہے۔ اگر بہن نے ہاں کر دی تو بھائیوں کا منہ بن جاتا ہے کہ اب تو ہمارے لیے اور ہم تیرے مر چکے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ “میراث اس کے حق دار لوگوں کو پہنچاؤ” گویا سوال نہیں کرنا بلکہ خود اس تک حق پہنچانا ہے۔ اگر رکھ لے تو بہتر، واپس کر دے تو اس کی مرضی۔ ہمارے ہاں اول تو دیا نہیں جاتا ، اگر عورت خود مطالبہ کرنے لگے تو اسے گنوایا جاتا ہے کہ ہم نے آپ کی شادی کی ، جہیز دیا ، سونا دیا فلاں فلاں۔ یہ مسئلہ یاد رکھیں کہ وراثت کا جہیز یا شادی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ جہیز وغیرہ تو اپنی خوشی اور گفٹ کے طور پر دیا جاتا ہے جس کی شریعت میں کوئی مقرر حیثیت نہیں۔ بلکہ اسے ہر شخص کی اپنی استطاعت پر چھوڑا ہے۔ البتہ وراثت کو مقرر بھی کیا اور فرض بھی۔ لہذا ادا نہ کرنے والا گناہ گار ہو گا۔ حتی کہ اگر اولاد میں سے کسی کو عاق بھی کیا ہو، پھر بھی وہ باپ کی وراثت کا حق دار ہوتا ہے۔ وراثت کسی بھی صورت میں زائل نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ وہ شخص باپ کو قتل کر دے یا مرتد ہو جائے۔
کسی بھی وارث کو اس کا حق ادا نہ کرنے پر حدیث مبارکہ میں سخت وعید آئی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا (یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔ اسی طرح ناجائز قابض ہونے پر دوسری حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “جو شخص(کسی کی) بالشت بھر زمین بھی از راہ ظلم لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں طوق کے طور پرڈالی جائے گی”
زرا سوچیئے! اس چند روزہ زندگی میں بہنوں بیٹیوں کا حق کھانے والوں کے لیے آخرت کی ابدی زندگی میں کتنی سخت وعیدیں زکر کی گئی ہیں۔ لہذا آخرت کو سنوارتے ہوئے دنیا میں عورت کو اس کا حق ادا کریں تاکہ اللہ تعالیٰ اور لکھو کے ساتھ لکھواس کی محبوب کی ناراضی سے بچ سکیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں