115

آج بھی یاد ہے 6 ستمبر کی رات/تحریر/مولانا ڈاکٹر محمد جہان یعقوب/مذہبی اسکالر و کالم نگار/یوم دفاع پرسلسلہ وارتحریر1

تحریر/مولانا ڈاکٹر محمد جہان یعقوب

قوموں اور ملکوں کی تاریخ میں کچھ دن ایسے ہوتے ہیں، جو عام ایام کے برعکس خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان میں وہ ایام بھی شامل ہوتے ہیں ،جب قوم کے جذبۂ ایثار وقربانی اور حوصلے وہمت کاامتحان ہوتاہے۔ یہ ایام بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ اگر قربانی کا حق ادا نہ کیا جائے،اپنی جان و مال کو وطن پر ترجیح نہ دی جائے، ماں کی ممتا اپنے جگر گوشے کو قربان کرنے سے گریزاں ہو، بوڑھا باپ اپنا اور خاندان کا سہارا کھونے کے لیے تیار،بیویاں شوہروں کواوربہنیں بھائیوں کو وطن پر قربان کرنے کے جذبے سے سرشار نہ ہوں تو پھر وطن اپنا وجود کھو بیٹھتاہے،ایسی بُزدل قومیں تاریخ کا حصہ اور قصۂ پارینہ بن جاتی ہیں، اور آزادی کے بجائے غلامی کی زندگی قوموں کا مقدر بن جاتی ہے۔ ایسا ہی ایک دن وطن عزیز پاکستان پر بھی آیا،جب بھارت نے پاکستان پر رات کی تاریکی میں حملہ کردیا۔یہ 6 ستمبر 1965 کی تاریخ تھی،پاکستان ابھی نیا نیا ہی بنا تھا کہ بھارت نے اس پر شب خون مارنے کی کوشش کی۔لیکن پاکستان کو حاصل کرنے والے اور اس کی قدروقیمت جاننے والے اہلِ وطن؛ بلاتفریق ِ خاص وعام، سول وفوجی؛ اس اچانک مسلط کی گئی جنگ کے آگے جس طرح سینہ سپر ہو کر ڈٹ گئے، تھوڑی نفری کے ساتھ ہی جس طرح اور جس جذبے سے مقابلہ کیا،دشمن کو ، جو یہ پروگرام بنا کر واہگہ بارڈر سے حملہ آور ہوا تھا کہ شام کی چائے لاہور میں پئیں گے،عبرت ناک شکست سے دوچار کیااوردشمن کو واپس اس کے علاقے میں دھکیلا،وہ تاریخ کاسنہری باب ہے۔ آج بھی یاد ہے 6 ستمبر کی رات اِک پڑوسی کا فعل، اِک ستم گر کی بات 6 ستمبر ہماری تاریخ کاعظیم دن ہے۔اس دن اُن شہیدوں کی یاد میں تقاریب کاانعقاد کیا جاتا اور شہدا کو سلامِ عقیدت پیش کیاجاتا ہے،جنھوں نے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر پاک وطن کے چپے چپے کی حفاظت کی تھی۔6 ستمبر کا دن میجر راجہ عزیز بھٹی شہید اور میجر شفقت بلوچ غازی کی کمان میں غازی نہر کے کنارے داد شجاعت دینے والے مجاہدوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا ہے جنھوں نے بھارتی فوج کے عزائم کو خاک میں ملا کر تاریخی کارنامہ سر انجام دیا۔6 ستمبر کا دن بھارت کے علاقہ کھیم کرن تک اپنے نقوش پا چھوڑنے والے شہیدوں اور غازیوں کوخراج عقیدت پیش کرنے کا دن ہے۔6ستمبر کا دن ’فاضلہ کا‘ سیکٹر کے سرفروشوں کو عقیدت و محبت کا نذرانہ پیش کرنے کا ہے ،جن کے نعرہ ٔتکبیر کی صدائوں سے بھارتیوں کے دل ڈوبتے رہے۔یہ دن ہمیں ان شہیدوں اور غازیوں کی یاد دلاتاہے،جنھوں نے میدانِ جنگ میں دشمن کو پسپا ہی نہیںکیا ، اسے صرف ناکوں چنے ہی نہیں چبوائے بلکہ گھٹنے ٹیکنے پر بھی مجبور کیا ۔یہ دن ہمیں اس دن کی یاد دلاتا ہے کہ کس طرح پاکستان کے شہیدوں، جری جوانوں اور غیور پاسبانوں نے دفاع وطن کی خاطر سرحدوں پر اپنی بہادری اور شجاعت کا لوہا منوایا، ان کی شجاعت کے ناقابل یقین کارناموں ، ان کی فرض شناسی اور حب الوطنی جدید جنگوں کی تاریخ میں درخشندہ مقام رکھتی ہے۔ ان کا یہی جذبۂ حب الوطنی اور شوقِ شہادت تھا جس نے پاکستانی عوام کے ساتھ مل کر اپنے سے پانچ گنا بڑے اور جدید اسلحہ سے لیس دشمن کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ یہ ایک تاریخی معرکہ تھا جس میں ہمت اور حوصلوں کی بے مثال کہانیوں نے جنم لیا۔بھارت کا خیال تھا کہ راتوں رات پاکستان کے اہم علاقوں پر قبضہ کر لیں گے،بھارتی جرنیلوں کا منصوبہ تھا کہ چھ ستمبر کی صبح لاہور کی سڑکوں پر بھارتی ٹینک اس وقت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری کو سلامی دیں گے اور شام کو لاہور جم خانہ میں کاک ٹیل پارٹی کے دوران بیرونی دنیا کو خبر دیں گے کہ اسلام کا قلعہ سمجھی جانے والی ریاست پر کفار کا قبضہ ہو چکا ہے، لیکن بھارت کے ارادوں اور منصوبوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب ان کی افواج کو مختلف محاذوں پر شکست اور پسپائی کی خبریں ملنے لگیں۔ یقینا اس وقت پاکستان کے پاس محاذ پر تیاریاں نہ ہونے کے برابر تھیں،مگر اللہ کے شیر مقابلے پر ڈٹ گئے اور چند ہی گھنٹوں میں بھارتی دعوؤں کے غبارے سے ہوا نکال دی۔۔ شاید انھیں اس با ت کا اندازہ نہیں تھا کہ شیر سویا ہوا ہوتب بھی شیر ہی ہوتا ہے،وہ شاید اس بات سے واقف نہیں تھا کہ جو زمین شہدا کے لہو سے سیراب ہوتی ہے وہ بڑی زرخیز اور شاداب ہواکرتی ہے، اس کے سپوت اپنی دھرتی کی طرف اٹھنے والی ہر انگلی کو توڑنے اور اس کی طرف دیکھنے والی ہر میلی آنکھ کو پھوڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،وہ جان تو وار دیتے ہیں لیکن وطن پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ افواج پاکستان اور عوام سروں پر کفن باندھ کر دشمن سے بھڑ گئے، جسموں سے بارود باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے، عوام نے اپنا سب کچھ دفاع وطن کے لئے قربان کر دیا اور ہندو بنیاکے ناپاک عزائم کو رزقِ خاک بنا دیا۔ طاقت کے نشے سے چور بھارت،جو پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کے لیے آیا تھا ، ہمیشہ کے لیے ناکامی ونامرادی اور شکست وذلت کا بد نما داغ سینے پر سجا ئے واپس جانے پر مجبور ہوا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں