مریم سلیم
ہم آزادی کی خوشی منا رہے ہیں ، کیا کبھی ہم نے تنہائی میں بیٹھ کر سوچا کہ کیا واقعتا ہم آزاد ہیں؟
پاکستان کو معارض وجود میں آئے 75 سال مکمل ہوئے، لیکن ہم میں سے اکثر لوگ اس آزادی کو فار گرانٹڈ ہی لیتے آئے ہیں کیونکہ نہ تو ہمیں اس کو حاصل کرنے کےلیے کوئی قربانی دینا پڑی نہ کسی نے اپنی آپ بیتی سنا کر ان قربانیوں کا احساس دلایا اور تحریک پاکستان کا مطالعہ کیا بھی تو صرف پیپروں میں نمبروں کے حصول کی خاطر ۔
آزادی ہے کیا؟ مختلف طبقات مختلف زاویہ نگاہ سے ہمیں آزادی کا درس دیتے رہے ہیں؛ مذہبی رہنما ہمیں نفس سے آزادی کا درس دیتے ہیں ، سیاست دان ہمیں امریکہ کی غلامی سے نجات دلانے کے واسطے تخت نشیں ہونا چاہتے ہیں، کوئی طبقہ فکری آزادی کا خواہاں ہے تو کوئی جسم پر خود مختاری کے لیے آواز اٹھا رہا ہے اور کوئی قبائلی نظام اور جاگیرداروں کے شکنجے سے آزادی کا مطالبہ کر رہا ہے۔
انسان فطری طور پر آزاد پیدا ہوا ہے اور جونہی اس کو اپنی آزادی سلب ہونے کا خطرہ محسوس ہوتا ہے تو یہ انسان ڈرنے لگتا ہے۔لیکن کئی پہلو سے یہی انسان غلام بن کر اپنے خوابوں کی تکمیل بھی چاہتا ہے ، اسے لگتا ہے کہ طاقتور بننے کے لیے پہلے غلام بننا پڑتا ہے ۔جب غلامی میں پستا ہے تو پھر رہائی کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے لگتا ہے ۔
اس وقت پاکستانیوں کی صورت حال بھی کچھ یہی معلوم ہو رہی ہے ،آگے بڑھنے کے لیے اسے کسی نہ کسی کی غلامی کو قبول کرنا پڑ رہا ہے ۔
ہم تعلیم یافتہ ہیں، ہماری فائل ڈگریوں سے بھری ہے لیکن ہمارے تعلیمی نظام نے ہمیں اس قابل نہیں بنایا کہ ہم طاقتور نظام کے سامنے ڈٹ سکیں؟ کیوں؟ کیونکہ ہم ڈرتے ہیں، ہم رسک نہیں لے سکتے ہماری زندگیوں کا نصب العین یا یوں کہہ لیجیے کہ ہمارے نزدیک کامیابی کا معیار پیسہ، عزت اور شہرت ہے ۔ہمیں اپنے عزیز ترین رشتوں کی خوشنودی بہت عزیز ہے جن کے لیے صبح سویرے ہم گھروں سے محنت مزدوری کے لیے نکل پڑتے ہیں اور یوں شام ہوجاتی ہے اور ملک کی تقدیر بدلنے کا خواب وہیں کا وہیں رہ جاتا ہے۔
اگر ہم پاکستان کی قسمت بدلنا چاہتے ہیں تو ہمیں ڈگریوں سے زیادہ اپنی نسلوں کو علم یافتہ یا باشعور بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اچھائی اور برائی میں تمیز کرنے کے لائق بن سکیں، جب ان پر ظلم ہو اسے روک سکیں۔ہمارا تعلیمی نظام اس لائق ہو کہ یہ اپنی تقدیر کو خود بدل سکیں۔اگر ایسے ہی برداشت کرکے تماشہ دیکھتے رہے تو بھوک ، جہالت، بیروزگاری، فحاشی، دہشت گردی، جرائم، عائلی، طبقاتی اور سیاسی جبر کو کوئی نہیں روک سکتا۔
ہم صبح پرستوں کی ریت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا