محمد ہارون خان
آزادی خدا کی بہت بڑی نعمت ہے، انسان اپنی زندگی کے بہت سے اقوال و افعال اس وقت تک انجام نہیں دے سکتا جب تک اسے آزاد ماحول دستیاب نہ ہو، اسی طرح ایک انسان کو اپنے مذہب او راپنے دینی عقائد پر عمل پیرا ہونے کے لیے بھی آزاد ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔
قرآن و حدیث کا مطالعہ کرنے سے ہمیں مختلف قوموں کے حالات سے آگاہی ملتی ہے، ان میں سے بعض قومیں ایسی تھیں جو آزادی کی نعمت سے محروم تھیں، جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم’’بنی اسرائیل‘‘ جو سالہا سال تک فرعون اور اس کی قوم ’’قبطیوں‘‘ کے غلام رہے، فراعنہ مصر ان پر طرح طرح کے ظلم ڈھاتے، ان کے بچوں کو قتل کردیتے، ا ن کی خواتین سے کام کاج لیتے اور مختلف طریقوں سے ان کو اذیت پہنچاتے رہتے تھے، یہاں تک کہ اللہ رب العزت نے انہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسا سربراہ عطا کیا جو وقت کے جلیل القدر پیغمبر تھے، انہوں نے اپنی قوم کو آزادی دلانے کے لیے جدو جہد شروع کی، ظالم بادشاہ اور اس کی افواج کا مقابلہ کیا اور بالآخر اپنی قوم کو آزادی دلانے میں کامیاب ہوگئے۔
سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی دور پر نظر دوڑائی جائے تو نہایت تکلیف دہ مناظر نظر آتے ہیں، مکی دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کے لیے مصائب اور پریشانیوں کا دور تھا، کفار مکہ مسلمان ہونے والے افراد پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیتے تھے اور اسے دین حق اسلام سے پھیرنے کے لیے ہر ممکن جتن کرتے تھے، حضرت عمار رضی اللہ عنہ، حضرت یاسر رضی اللہ عنہ، حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ پر جو ستم ڈھائے گئے ان کے بارے میں سوچ کر ہی بدن کانپ اٹھتا ہے۔ حرم مکہ میں ہونے کے باوجود مسلمان اپنی عبادات چھپ کر ادا کرتے تھے، انہیں اپنے دین پر عمل پیرا ہونے کی آزادی نہیں تھی، لیکن ان تکالیف و مصائب کے باوجود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حق پر دلجمعی کے ساتھ ڈٹے رہے اور بالآخرحق تعالیٰ شانہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مکہ سے ہجرت کی اجازت عطا فرمادی، یوں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ابتداء حبشہ کی جانب اور بعد ازاں مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ رب العزت کی اجازت سے مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور ایک آزاد ریاست کی داغ بیل ڈالی۔
تاریخ کے سفر میں آگے بڑھتے جائیں تو یہی حالات تقسیم ہند اور قیام پاکستان سے قبل متحدہ ہندوستان میں نظر آتے ہیں، جہاں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا تھا، انگریز نے چونکہ حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی اس لیے مسلم کمیونٹی کے مفادات سے اسے کوئی غرض نہیں تھی، رہی سہی کسر ہندو طبقہ نے پوری کر دی تھی، جو مسلمانوں کے خلاف دل میں بغض اور نفرت لیے ہوئے تھے، یہی وجہ تھی کہ اکثر فسادات برپا ہوتے، مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا جاتا، شعائر اسلام کی توہین کی جاتی، اور مختلف طریقوں اور حیلوں بہانوں سے مسلمانوں کو تکلیف دینے کا کوئی موقع فروگزاشت نہ کیا جاتا۔
ان نامساعد حالات میں ایک عرصہ تک انگریز کے زیر نگر رہنے کے بعد جب بالآخر برصغیر پاک و ہند کی عوام کی مسلسل جدوجہد کے نیتجے میں انگریز متحدہ ہندوستان چھوڑنے پر آمادہ ہوا تو آئندہ کے لیے برصغیر کی حکومت کی سپردگی کا مسئلہ آن کھڑا ہوا، انگریز کے طرز حکومت کے مطابق، جس میں بقول اقبال
؎ بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے
ریاستی نظام خود بخود اکثریتی طبقہ یعنی ہندوؤں کو منتقل ہوجاتا، یوں مسلمان جو پہلے انگریزوں کے مظالم کا شکار رہے وہ مستقبل میں ہندوؤں کے محتاج اور زیر اثر بن کر رہنے پر مجبور ہوجاتے، جس کے مسلمانوں کے مستقبل پر نہایت تکلیف دہ نتائج مرتب ہوتے، ایسے میں چند مردان قلندر صفات اٹھے، جنہوں نے ان خدشات کو بھانپ لیا تھا، چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد اور الگ وطن بنانے کا بیڑا اٹھایا۔
علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ؒ نے سب سے پہلے آزاد مملکت کا خواب دیکھا اور اس خواب کی تکمیل کے لیے برصغیر کی مسلمان قوم کو اپنی شاعری کے ذریعے ابھارا اورانہیں خواب غفلت سے بیدار کیا۔ خوش قسمتی سے مسلمانان ہند کو قائد اعظم محمد علی جناح جیسا سربراہ اور لیڈر نصیب ہوا، جنہوں نے اقبال کے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے اپنی پوری لگن اور جستجو سے کام کیا، مسلمانان ہند کے ہر طبقہ نے قائد اعظم کی پکار پر لبیک کہا، وقت کے عظیم علماء کرام بھی اس سفر میں قائد اعظم کے ہمراہی ہوئے، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ، حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ اور حضرت مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ اور ان کے تلامذہ و مریدین کے کثیر حلقہ نے قائد اعظم کے شانہ بشانہ اس کٹھن اور دشوارگزار سفر میں اپنا کردار ادا کیا، اور بالآخرتقریباً سات سال کے عرصہ میں مسلسل اور جان توڑ محنت اور کوشش کے بعد مسلمانان ہند اپنے لیے ایک آزاد وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے،جس کا نام ـ ـ’’پاکستان‘‘ رکھا گیا اور آج ہم اس پاک وطن کی آزاد فضاؤ ں میں سانس لے رہے ہیں، فللہ الحمد ولہ الشکر
آزادی کے سفر میں مسلمانان ہند کو بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑی، ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا، چشم فلک نے وہ دلسوز نظارہ بھی دیکھا تھا جب امرتسر سے چلنے والی ٹرین جو مسلمان مسافروں سے بھری ہوئی ہوتی تھی، لاہور پہنچتی تھی تو سوائے کٹی پھٹی لاشوں، خون آلود جسموں اور چند آخری سانسیں لیتے زخمیوں کے سوا کچھ نہ ہوتا۔
اس سفر کے دوران کتنی مائیں ایسی ہیں جو اپنے بچوں کی راہ تکتی رہ گئیں
کتنی بیویاں ایسی ہیں جن کے سہاگ ان سے چھین لیے گئے
کتنے معصوم بچے ایسے ہیں جو اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے جدا ہوگئے
کتنی پاکدامن جوان بیٹیاں ایسی ہیں جن کی عزت کو تار تار کر دیا گیا
اس سب کے باوجودانہوں نے وہ سفر جاری رکھا، شاید وہ انجام سے پہلے ہی واقف تھے، لیکن انجام کے خوف سے آغاز نہ کرنا یا درمیان راہ میں سفر ترک کردینا بزدلوں کا شیوہ ہے، جبکہ ہمارے اسلاف کو اللہ رب العزت نے غیرت ایمانی بھی دی تھی اور قومی اور ملی جذبہ بھی، اس لیے انہوں نے اپنا آج ہمارے کل پر قربان کردیا۔ یوں آزادی مل گئی لیکن اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس آزادی کی وہ قدر کریں جو اس کا حق ہے، جس آزادی کے لیے ہمارے بڑوں نے اپنی جان، مال اور عزت و آبرو کی قربانی دی اس آزادی کے تقاضوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں تاکہ جس مقصد کے لیے ہمارے بڑوں نے یہ آزاد ملک ہمیں دیا، ہم اس مقصد سے رتی بھر پیچھے نہ ہٹیں اور اس پاک وطن کی ترقی و بہبود کے لیے اپنی بساط بھر کوشش کر یں۔
آزادی کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس عظیم نعمت پر اللہ رب العزت کا شکر ادا کریں اور ہمارے جن بڑوں نے اس نعمت کے حصول میں قربانیاں دی ہیں ان کو ہمیشہ یاد رکھیں، کیونکہ یہی ایک سچے مسلمان اورباظرف انسان کی علامت ہوتی ہے کہ وہ اپنے محسنوں کو کبھی فراموش نہیں کرتا۔ شکر ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان کو جن مقاصد کے لیے بنایا گیا تھا ان مقاصد کے حصول کے لیے دل وجان سے کوشش کی جائے، اور وطن عزیز کی بہتری اور سلامتی کے لیے اپنی جان تک پیش کرنے سے گریز نہ کیا جائے۔ چونکہ یہ وطن اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا اور دو قومی نظریہ اس وطن کی اساس ہے، اس لیے وطن عزیز میں قرآن و سنت کے مطابق اسلامی نظام کا نفاذ بھی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
آزادی کا ایک تقاضا یہ ہے کہ یہ وطن ہمارا گھر ہے، تو جس طرح ہم اپنے گھروں کی صفائی ستھرائی کا اہتمام کرتے ہیں اور گھر کی چیزوں کی حفاظت کرتے ہیں، اسی طرح وطن عزیز کے گلی کوچوں کی صفائی ستھرائی اور املاک پاکستان کی حفاظت بھی ہمارے فرائض میں شامل ہے، یہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ ملک پاکستان کے ہرشہری خواہ وہ کسی مذہب، کسی مسلک، کسی ذات سے تعلق رکھتا ہو، کی ذمہ داری ہے۔
چونکہ یہ وطن ہم سب کا ہے، اس لیے ہر شعبہ زندگی کے افراد پر اپنے اپنے شعبہ کے لحاظ سے ملک کی خدمت کرنا فرض ہے،کیونکہ تما م شعبہ جات مل کر ہی ملک کی کامیابی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، لہذا حکمران، بیوروکریٹس، افواج سے ڈاکٹر، وکیل، علماء، تاجر اور صحافی تک سب کو چاہیے کہ وہ اپنے شعبہ میں اپنی ذمہ داریاں بخوبی سرانجام دیں، اگر ہر طبقہ اپنے شعبہ کی ذمہ داری احسن طریقہ سے سرانجام دے تو یقینا ہمارا پیا را وطن ترقی کی راہ پرآگے بڑھتا جائے گا۔
آخری بات یہ ہے کہ قومیں وہی ترقی کرتی ہیں جہاں انصاف کا بول بالا ہو اور انصاف کی فراہمی ہر فرد تک بلا تعطل اور فوری ہو، کسی طبقہ یا کسی فرد پر کوئی زیادتی یا ظلم روا نہ رکھا جائے، لہذا وطن عزیز میں انصاف کی فوری دستیابی کو ہر ممکن بنایا جائے، مظلوم کی داد رسی اور ظالم کے خلاف فوری ایکشن میں کوئی کمی روا نہ رکھی جائے۔ آزاد عدلیہ کا قیام نہ صرف وقت کی اہم ضرورت ہے بلکہ وطن عزیز کے بقاء کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اس وطن کی قدر کرنے اور اس کی سا لمیت اور بقاء کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین