گزشتہ روز 31 جولائی بعد نماز فجر جب اپنا موبائل دیکھا تو افسوس ناک خبر پڑھنے کو ملی کہ جید عالم دین، مدیر و شیخ الحدیث دارالعلوم عیدگاہ کبیروالا مولانا ارشاد احمد اس جہانِ فانی سے چل بسے۔ یادوں کو ٹٹولا تو ایک بہت ہی پیاری ملاقات ، زیارت اور ان کے ساتھ بیتے چند لمحات یاد ائے
23 مارچ2015 بروز منگل نماز فجر کے بعد حسب معمول اپنے پیر و مرشد جانشین مرشدِ عالم حضرت مولانا صاحبزادہ پیر عبدالرحیم نقشبندی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا دوران گفتگو راقم الحروف نے عرض کیا کہ آج شیخ الحدیث مولانا ارشاد احمد صاحب چکوال تشریف لائے ہوئے ہیں
حضرت جانشین مرشد عالم دامت برکاتہم العالیہ نے اسی دن حضرت مولانا ارشاد احمد صاحب سے رابطہ فرمایا اور چکوال ڈھکو روڈ پر اپنی ذاتی جگہ پر مسجد مریم حبیب کی سنگ بنیاد رکھوائی ۔ جہاں علماء و عوام الناس کا ایک اجتماع منعقد ہوا جس میں جانشین مرشد عالم دامت برکاتہم نے گفتگو کرتے ہوئے بندہ ناچیز کا ذکر کر تے ھوئے فرمایا کہ آج مجھے عزیزم مولوی محمد زکریا نے بتایا کہ آپ چکوال تشریف لائے ھوئے ہیں سوچا کہ آپ ہی کے دست شفقت سے اس مسجد کی سنگ بنیاد رکھی جائے حضرت جانشین مرشد عالم دامت برکاتہم نے بندہ ناچیز کی اور زیادہ حوصلہ افزائی فرمائی جو کہ میرے لیے سعادت کی بات ہے
حضرت جانشین مرشد عالم دامت برکاتہم کی ملک بھر دینی مراکز و مساجد کا ایک جال پھیلا ھوا ھے انہی مساجد میں سے ایک مسجد جامع مسجد مریم حبیب ڈھکو روڈ بھی ہے جس کی سنگ بنیاد شیخ الحدیث حضرت مولانا ارشاد احمد صاحب مہتمم دارلعلوم کبیر والا نے رکھی۔ حضرت جانشین مرشد عالم دامت برکاتہم العالیہ نے اس مسجد کو رات دن کی محنت کر کے انتہائی قلیل وقت میں تعمیر کروایا اور وھاں کی امامت وخطابت کی ذمہ داری اپنے ادارہ کے سابقہ طالب علم مولانا محمد عدنان ظفر کے سپرد فرمائی جنہوں نے درجہ حفظ سے لے کر درس نظامی کی تکمیل تک کے تمام مراحل جانشین مرشد عالم دامت برکاتہم العالیہ کے زیر سایہ طے کیے ۔ اور حفظ قرآن کی سعادت چکوال کے مشہور دینی ادارہ مرکز علوم نبویہ جامعہ الحبیب السلامیہ کے معروف استاد قاری عبدالستار عاصم صاحب سے حاصل کی جو اب تک الحمد للّہ اپنی خدمات پیش کررہے ہیں
شیخ الحدیث مولانا محمد ارشاد احمد صاحب رحمتہ اللہ تعالی علیہ کا شمار ان اکابرین ملت میں ھوتا ھے جنہوں نے علوم نبویہ کی اشاعت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کیں
قال اللہ قال رسول پڑھنے والے مہمانان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عقیدت اور محبت کا وہ رشتہ تھا کہ ہر طالب علم کو بیٹا کہہ کر پکارتے تھے
چند سال قبل اپنے عزیزم دوست مولانا مدثر حسین اشرفی کے ہمراہ دارالعلوم کبیر والا میں حاضری کا شرف حاصل ھوا ہم دفتر میں حاضر ھوئے اور مولانا ارشاد احمد صاحب کی زیارت و ملاقات کی درخواست کی
کافی انتظار کے بعد حضرت جب تشریف لائے تو سلام دعا کے بعد پوچھا کہ بچوں کب سے بیٹھے ہیں ہم نے عرض کی کہ کافی دیر ہوئی تو ناراض ہوئے کہ مجھے بتایا کیوں نہیں رابطہ کر لیتے ۔
کافی دیر شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی کی خدمت میں حاضر رہے دودھ سوڈا منگوایا اور دو دو گلاس دودھ سوڈا کے پلوائے بہت زیادہ محبت سے نوازا چکوال کے اکابرین پیر و مرشد جانشین مرشد عالم حضرت مولانا صاحبزادہ پیر عبدالرحیم نقشبندی، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عتیق، حضرت مولانا قاری عاشق حسین اور دیگر چیدہ چیدہ حضرات کا ذکر خیر ہوتا رہا ۔ کم وبیش ایک گھنٹہ ملاقات کے بعد اجازت چاہی تو ڈھیروں دعاؤں سے رخصت فرمایا ۔
آپ کی وفات عالم اسلام کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ جو صدیوں پر میں کیا جاسکتا
گزشتہ کل اپنے محترمی و مکرمی برادرم مولانا خالد زبیر صاحب سے تعزیتی گفتگو ھوئی تو انہیں نے شیخ الحدیث مولانا ارشاد احمد رحمہ اللہ کی وفات سے قبل کے حالات بتائے تو دل خون کے آنسو روتی رہیں
مولانا خالد زبیر صاحب فرمانے لگے کہ میرے والد گرامی قاری عاشق حسین صاحب اور شیخ الحدیث مولانا ارشاد احمد صاحب دونوں ہم سبق رہے اور میں نے بھی دارلعلوم کبیر والا سے فراغت حاصل کی
فرمانے لگے ۔ہمارے دوست مولانا ابراہیم شاہ صاحب خانیوالی، دارالعلوم کبیروالہ میں تدریسی فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ آج ان سے مولانا ارشاد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال سے متعلق تفصیل پوچھی تو انہوں نے ذیل کی تفصیل بتائی:
’’حضرت مولانا محمد ارشاد صاحب نے کل29 جولائی سارے کام معمول کے مطابق انجام دئیے ، عصر کے بعد کافی دیر مسجد کے صحن میں تشریف فرما رہے۔ مغرب کے بعد معمول کے کام مصروف رہے۔ البتہ ایک نیا کام جو معمول سے ہٹ کر تھا وہ یہ کہ اپنے بڑے بیٹے مفتی اویس صاحب اور عبدالرحمن شاہ صاحب جو استاد جی کے سفر کے ساتھی ہوتے تھے کے ساتھ مغرب کے بعد کافی دیر تک خصوصی ملاقات کی اور اس میں اپنے سارے لین دین اور قرض سے متعلق بتایا۔ جس کے مطابق ان کے ذمہ کوئی قرض نہیں تھا نہ مدرسے کا نہ کسی اور کا۔ البتہ وہ مدرسے میں اپنی تدریس کی تنخواہیں واپس لوٹاتے رہتے تھے۔ عبدالرحمن شاہ صاحب نے استاد جی کے دولاکھ روپے دینے تھے، اس سے کہا کہ وہ مجھے دیے دیں تاکہ میں مدرسے میں اپنی گزشتہ تنخواہوں کی مد میں مزید پیسے جمع کروا سکوں۔ اس نے آج صبح پیسے لانے کا وعدہ کیا تھا اور وہ لے بھی آیا۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا
’’رات سونے تک سب ٹھیک تھا، صبح تہجد میں خود سے جاگنے کا معمول تھا۔تاہم صبح خود سے نہیں جاگے ، گھر والوں نے صبح فجر کی نماز کے لئے جگانے کی کوشش کی تو نہیں جاگے، تب انہیں معلوم ہوا کہ حضرت بے ہوشی کیفیت میں ہیں۔ میں (بندہ ابراہیم شاہ) فجر کی نماز کے فوراً بعد اپنی جگہ سے اٹھا تو مفتی حامد صاحب کا بیٹا نماز سے فارغ ہونے والے اساتذہ کرام سے مہتمم صاحب کی طبیعت کی خرابی کا ذکر کر رہا تھا ۔ ہم تین اساتذہ گھر کی طرف دوڑے تو وہاں 1122کی ایمبولینس آئی ہوئی تھی اور اویس وغیرہ حضرت کو ایمبولینس میں لے جانے کیلئے اٹھا کر لا رہے تھے۔ ایمرجنسی وارڈ میں گئے تو ڈاکٹروں نے معائنے کے بعد بتایا کہ حضرت کا انتقال ہوئے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ گزر چکا ہے۔‘‘
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اللہ کریم حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کو کروٹ کروٹ راحت نصیب فرمائے ۔امین