/تحریر/انمول منہاس نوابشاہ سندھ
جہاں بھی ہوگا اپنی روشنی لٹاۓ گا
چراغ کا اپنا کوٸ مقام نہیں ہوتا
اسلام نے جہاں مسلمانوں پر حصول علم کو فرض قرار دیا وہاں استاد کو بھی ایک باعزت مقام عطا کیا تاکہ اس کی وجاہت سے علم کا وقار بڑھے۔
استاد کا یہ اعزاز کیا کم ہے کہ اسے ھادی برحق حضرت مُحَمَّد ﷺ سے ایک خصوصی نسبت حاصل ہے جیساکہ ارشاد نبوی ہے انما بعثت معلماً مجھے تو معلم ہی بناکر بھیجاگیا ہے۔
استاد معلم مدرس وہ عظیم ہستی جو ایک سوکھے درخت کو اپنی آغوش میں لے کر اس کو تروتازگی بخش کر بارآور بناتا ہے،ہر قوم و مذہب میں استاد کو اس کے پیشے کی عظمت کی وجہ سے اہمیت حاصل ہے۔ استاد طلبإ کو نہ صرف مختلف علوم و فنون کا علم دیتاہے بلکہ اپنے ذاتی کردار کے ذریعہ ان کی تربیت کا کام بھی انجام دیتا ہے۔
علمی ارتقاء میں استاد کے کردار سے کبھی کسی نے انکار نہیں کیا،ابتدائے آفرینش سے نظام تعلیم میں استاد کو مرکزی مقام حا صل ہے۔استاد قوموں کے عروج وزوال میں اہم کردار ادا کرتے ہیں،استاد آدمی سے انسان،ظالم سے محسن اور جاہل سے عالم بناتا ہے اور سب سے بڑھ کر انسان کو اپنے تشخص و اہمیت سے آگاہ کرتا ہے۔
استاد علم دے کر نٸ نسل کی صحیح نشوونما اور اسکے فکر و نظر کی اصلاح کرتے ہیں،نٸ نسل انہی کے فراہم کردہ سانچوں میں ڈھلتی ہے۔
ایک بہترین استاد اپنے کردار گفتار اور شخصیت سے اپنے طالب علم کی بنیاد رکھ دیتا ہے جس کے حصار سے وہ زندگی بھر نہیں نکل سکتااور اسی بنیاد پر ایک عظیم شخصیت کی عمارت بن جاتی ہےاور اسی طرح ایک مکمل انسان معاشرے کے سامنے پیش کردیتا ہے۔
استاد علم کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ قوموں کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ کا رول اہمیت کا حامل ہوتاہے۔اساتذہ کو نئی نسل کی تعمیر و ترقی،معاشرے کی فلاح و بہبود ،جذبہ انسانیت کی نشوونما اور افرادکی تربیت سازی کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔استاد اپنے شاگردوں کی تربیت میں اس طرح مگن رہتا ہے جیسے ایک باغبان ہر گھڑی اپنے پیڑپودوں کی نگہداشت میں مصروف رہتا ہے۔ تدریس وہ پیشہ ہے جسے صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ لیکن یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ دنیائے علم نے استاد کی حقیقی قدر و منزلت کو کبھی اس طرح اجاگر نہیں کیا جس طرح اسلام نے انسانوں کو استاد کے بلند مقام و مرتبے سے آگاہ کیا ہے۔ اسلام نے استاد کو بے حد عزت و احترام عطاکیا ۔اللہ رب العزت نے قرآن میں نبی اکرم ﷺ کی شان بحیثیت معلم بیان کی ہے۔خود رسالت مآب ﷺ نے ’’انمابعثت معلما‘‘(مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے ) فرما کر اساتذہ کو رہتی دنیاتک عزت و توقیر کے اعلی منصب پر فائز کردیا ہے ۔ اسلام میں استاد کا مقام و مرتبہ بہت ہی اعلی و ارفع ہے۔ امیر المومنین حضرت عمرؓ سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود آپؓ کے دل میں کوئی حسرت باقی ہے ۔آپؓ نے فرمایا’’کاش میں ایک معلم ہوتا۔‘‘شاعر مشرق مفکر اسلام علامہ اقبال ؒ معلم کی عظمت یو ں بیان کرتے ہیں۔’’استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بناناانہیں کے سپرد ہے۔معاشرے میں جہاں ایک ماں کی آغوش کو بچے کی پہلی درس گاہ قرار دینے کے ساتھ ایک مثالی ماں کو ایک ہزار اساتذہ پر فوقیت دی گئی ہے وہیں ایک استاد کو اپنی ذات میں ساری کائنات کو بچے کے لئے ایک درس گاہ بنانے کی طاقت رکھنے کی وجہ سے روحانی والد کا درجہ دیا گیا ہے۔باپ بچے کو جہاں اپنی انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے وہیں استاد بچے کو زندگی میں ہمیشہ آگے بڑھنے کی تلقین کرتا ہے۔سکندر اعظم سے کسی نے پوچھا کہ وہ کیوں اپنے استاد کی اس درجہ تعظیم کرتا ہے۔سکندر اعظم نے کہا کہ اس کے والدین اسے آسمانوں سے زمین پر لے آئے ہیں جب کہ استاد اس کو زمین سے آسمانوں کی بلندیوں تک پہنچاتا ہے۔ استاد معاشرے کی عمدہ اقدار کا امین و نگہبان ہونے کے ساتھ ساتھ ان اقدار کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کا ذریعہ بھی ہوتا ہے۔ اساتذہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں اگر ذرہ برابر بھی چوک جائیں تب معاشرہ کی بنیادیں اکھڑ جاتی ہیں اور معاشرہ حیوانیت نفس پرستی اور مفاد پرستی کی تصویر بن کر جہنم کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ہر انسان کے لئے نبی اکرم ﷺ کی ذات پاک بہترین نمونہ ہے۔آپ ﷺ معلم اعظم ہیں اسی لئے اساتذہ اپنے پیشے سے انصاف کرنے کے علاوہ درس و تدریس میں اثر و تاثیر پیدا کرنے کے لئے آپﷺ کے اسوہ حسنہ کی لازمی پیروی کریں۔ایک معلم کا قلب جب رب حقیقی کی عظمت و کبریائی سے معمور ہوگا ،احکام خداوندی کا پابند اور سنت نبویﷺ پر عامل ہوگا تب اس کا درس شاگردوں کے لئے باران رحمت اور زندگی کی نوید بن جائے گا۔معلم کا خوش اخلاق ،نرم خو،خوش گفتار،ملنسار،ہمدرد،رحمدل،غمگسار و مونس اور مدد گار ہونابہت ضروری ہوتا ہے۔معلم کی ہر بات و حرکت طلبا پر اثر انداز ہوتی ہے۔طلباء صرف استاد سے کتاب یا اسباق ہی نہیں پڑھتے ہیں بلکہ وہ استاد کی ذات وہ شخصیت کا بھی مطالعہ کرتے ہیں۔طلباء کی کردار سازی میں اور شخصیت کے ارتقاء میں معلم کا بہت بڑا دخل ہوتاہے۔ایک اچھا استاد اپنے شاگردوں کی کردار سازی کے لئے ہمہ وقت فکر مند رہتا ہے۔اپنے طلباء کے دلوں سے کدورتوں،آلودگیوں اور تمام آلائشوں کو دور کرتے ہوئے اس کو ایمان ،خوف خدا ،اتباع سنت اور آخرت کی جواب دہی کے احساس سے معمور کرتا ہے۔