65

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سکینڈل/تحریر/ حافظ صفوان

اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور سکینڈل….اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور سکینڈل سے متعلق میری اب تک کی تصدیق کردہ معلومات کا خلاصہ پیش ہے۔ واضح رہے کہ میں نے صرف وہ لکھا جسے میں کنفرم کرسکا اور جو یہاں رہتے ہوئے کوئی آزاد شہری لکھ سکتا ہے۔ بیشتر صحافی جنھوں نے اِس موضوع پر لکھا ہے اور جن کا لکھا میں پڑھ سکا ہوں اُن کا سورس ڈرائنگ روموں کی گفتگو ہے اور اُن میں سے کوئی اِن دنوں یونیورسٹی میں نہیں آیا۔ میرا سورس یونیورسٹی میں آج کل پڑھنے والے والیاں، پڑھانے والے والیاں، مختلف انتظامی پوسٹوں پر موجود لوگ اور شہری انتظامیہ کے لوگ ہیں۔ البتہ میں کسی سورس کا نام نہیں لکھوں گا اور نہ کسی کی کوئی ذاتی انفارمیشن دوں گا۔ لوگوں کے ٹیلیفون نمبر اور کلاسیفائیڈ انفارمیشن پبلک کرنا جرم ہے۔ ایک لمحے کو ذرا سوچ لیجیے کہ اِس وقت جن مردوں عورتوں کے فون نمبر اور میسجز اِدھر اُدھر شیئر کیے جا رہے ہیں، اِن سب کی اور اِن کے خاندانوں کی آئندہ زندگی کیسی گزرے گی۔ جہاں بیٹیوں کی عزت اچھالی گئی ہے وہیں بیٹوں کی عزت بھی چوراہے کی ٹھیکری بنا دی گئی ہے۔ میری اِس تحریر کا مقصد اُس غلط تصویر کو ختم کرنا ہے جو اِس واقعہ کی رپورٹنگ کے ذریعے اسلامیہ یونیورسٹی اور اِس کی وجہ سے سارے شہر کی بنا دی گئی ہے۔ 1: وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب یہاں اپنی مدتِ ملازمت مکمل کرکے آج 25 جولائی کو اپنا چارج پرووائس چانسلر کو دے کر رخصت ہوگئے۔ اُنھوں نے اپنے دور میں یونیورسٹی میں سب سے زیادہ نئے شعبے قائم کیے اور کورسز متعارف کرائے۔ سوسائٹی میں ایسے لوگوں کے لیے بھی تعلیم اور تربیت دینے کے مواقع پیدا کیے گئے جنھیں عام حالات میں یونیورسٹی میں داخلہ نہیں مل سکتا تھا۔ یونیورسٹی میں آئے دن سوشل ایکٹیوٹیز ہوتی تھیں۔ اکیڈمیا اور انڈسٹری کا ریلیشن نہایت مضبوط ہوا نیز حکومتِ پاکستان کے بہت سے پروگرام یہاں چلائے گئے۔ 2: وائس چانسلر کو یہاں اگلی ٹرم ملنے کا واضح امکان تھا۔ لیکن جو شور اِس وقت اٹھایا گیا ہے اُس نے اِس امکان کو ختم کر دیا۔ امید ہے کہ یہ شور بھی ایک دو دن میں ختم ہوجائے گا۔ 3: بہاول پور کے کسی بھی امیر سے امیر اور غریب سے غریب محلے کی ہر گلی میں اسلامیہ یونیورسٹی کا کوئی نہ کوئی طالبِ علم یا طالبہ موجود ہے۔ شہر کے بیشتر لوگ آپس میں ایک دوسرے کو اور ایک دوسرے کے خاندان اور مالی و اخلاقی حالت کو ذاتی طور پہ جانتے ہیں۔ یونیورسٹی کا شہر کے لوگوں سے براہِ راست تعلق بہت زیادہ ہے۔ یہ یونیورسٹی بہاول پور کی سوسائٹی کی آئینہ دار ہے۔ کوئی پوچھے کہ اسلامیہ یونیورسٹی میں کیا ہو رہا ہے تو اِس کا صاف جواب ہے کہ وہی جو معاشرے میں ہر جگہ ہو رہا ہے۔ اِس جملے میں کوئی اوورسٹیٹمنٹ نہیں ہے۔ 4: اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور نے نسبۃً سستی تعلیم دے کر چھوٹے موٹے تعلیمی ادارے چلانے والوں اور پچھلے چند سال میں ستر ہزار کے قریب طلبہ طالبات کے لیے ڈیڑھ سو کے قریب ڈسپلنز میں تعلیم شروع کرکے بڑے بڑے مالدار انویسٹرز اور پرائیویٹ کالجوں کے نیٹ ورک کو اپنا کاروباری دشمن بنا لیا ہے۔ یہ تعداد زیادہ لگ رہی ہے لیکن یہ تخمینی فگرز یونیورسٹی کے دو ذمہ دار افسران نے مجھے بتائے ہیں۔ یہ تعداد یونیورسٹی کے بہاول نگر کیمپس اور رحیم یار خان کیمپس وغیرہ کے طلبہ طالبات کو شامل کرکے بتائی گئی ہے۔ 5: منشیات بیچنے والوں اور منشیات کی لت لگے ہوئے لوگوں کی شہر میں جتنی شرح ہے اُسی تناسب سے یونیورسٹی کے طلبہ طالبات اور اساتذہ و استانیوں کی ہے۔ جنسی جرائم اور بداخلاقی میں ملوث اساتذہ و استانیوں کی شرح بھی تقریبًا یہی ہے۔ غیر اخلاقی مواد موبائل فونوں سے بھیجنے والوں/ والیوں اور وصول کرنے والوں/والیوں کی شرح بھی اِسی تناسب سے ہے۔ جہاں ہزاروں کی تعداد میں فیکلٹی ہے وہاں منشیات استعمال کرنے والے کچھ لوگوں کا فیکلٹی میں ہونا بالکل ممکن ہے۔ جب ایک گھر میں ایک دو بچے شرارتی ہوسکتے ہیں تو اِتنی بڑی یونیورسٹی میں ایسے کچھ لوگوں کا ہونا ہرگز تعجب کی بات نہیں ہے۔ 6: نوجوان اساتذہ اور سیکورٹی سے متعلق بعض ذمہ دار افراد کا کہنا ہے کہ دور دراز کے کچھ علاقوں کے طلبہ کے داخلوں کے باعث منشیات کی فراہمی میں اضافہ ہوا ہے۔ نیز پرائیویٹ ہوسٹلوں کی وجہ سے چیک اینڈ بیلنس قائم نہیں رہا ہے اور اخلاقی جرائم کی تعداد زیادہ ہو رہی ہے۔ 7: پولیس کے مطابق شہر اور مضافات کے دیگر علاقوں کی طرح یونیورسٹی میں کام کرنے والوں (سٹاف، اساتذہ، طلبہ طالبات) کے منشیات کے استعمال نیز بداخلاقی کے واقعات کی رپورٹیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں اور اب بھی ہیں۔ جو گرفتاریاں پہلے اور اب ہوئی ہیں اُن کو سیاسی رنگ دینا یا انتقامی کارروائی کہنا درست نہیں۔ منشیات استعمال کرنے اور بیچنے خریدنے والوں میں صرف سیاستدان نہیں بلکہ سبھی طبقوں کے لوگ ہیں۔ 8: پولیس کا کام منشیات کی برآمدگی اور خرید و فروخت کی تحقیقات ہے اور وہ اپنا کام کر رہی ہے۔ 9: پولیس کے ایک بڑے ذمہ دار افسر نے گپ شپ میں بتایا کہ یونیورسٹی میں پڑھنے پڑھانے والوں کے موبائل فونوں میں بھی غیر اخلاقی مواد تقریبًا اُسی تناسب سے ہوتا ہے جس سے شہر کے باقی لوگوں میں فونوں میں موجود ہے۔ 10: جہاں چنگاری اور بھوسہ ہو وہیں سے دھواں اٹھنے کا امکان ہوتا ہے۔ یہاں یہی ہوا ہے۔ تاہم جس شدت سے میڈیا میں اِسے پھیلایا گیا، اور ہماری بھولی بھالی لائی لگ عوام نے پوسٹیں لگا لگاکر یونیورسٹی کو اور یونیورسٹی کی آڑ میں پورے شہر کو قحبہ خانہ بناکر پیش کیا، اِس کا تاثر زائل کرنے کے لیے شاید اب کوئی اور بڑا میڈیا سٹنٹ لانا ہوگا۔ تاہم واضح رہے کہ اِس بات کو میڈیا پر پھیلانے کا ذمہ دار کسی ایک شخص کو ٹھہرانا بالکل غلط ہے۔ 11: بہت سے لوگوں کی گفتگو سننے سے ایک تاثر یہ بنا کہ بات منشیات کی تھی، جس کی سزا بہت سخت ہے۔ اِسے چھپانے کے لیے غیر اخلاقی مواد کو بڑھا چڑھاکر پیش کیا جا رہا ہے۔12: چنگاری کے آگ پکڑنے کی اصل وجہ کی باتیں بہت متنوع پہلو رکھتی ہیں۔ مثال لیجیے کہ وائس چانسلر کا کسی کی بیوی یا بھائی کو ملازمت پر نہ لینے کی ذاتی پرخاش والا موضوع تک بھی گردش میں ہے۔ بہرحال کچھ بھی ہے، اِس وقت سارا شہر انویسٹیگیٹو جنرلسٹ بنا ہوا ہے جو ہرگز درست رویہ نہیں ہے۔ ہر کچے پکے گھر میں اور ہر دکان ہوٹل دفتر میں جہاں چار لوگ جمع ہیں، یہی مسئلہ زیرِ بحث ہے۔ میڈیا کے غلط استعمال سے ہیجان پیدا کیا جانا اور سنسنی خیز خبریں چلانا بھی کسی طور درست نہیں ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ بہاول پور شہر کا سب سے مضبوط اور سب سے وسیع سماجی ثقافتی مرکز ہے۔ کچھ خراب لوگوں اور کچھ لوگوں کی خرابیوں کی وجہ سے شہر کا امیج خراب نہیں کرنا چاہیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں