آپ کا نام مبارک علی ہے اور القاب اسداللہ،حیدرِ کرار اور مرتضی تھے۔ابوالحسن اور ابو تراب آپؓ کی کنیت تھی۔ آپؓ کانسب رسول ﷺ سے بہت قریب ہے۔آپ کے والد ابو طالب رسولﷺ کے چچا تھے۔آپ ؓکی والدہ کانام فاطمہ بنت اسد بنت ہاشم تھا۔اس طرح آپؓ والد اور والدہ دونوںکی طرف سے ہاشمی ہیں۔رازم بن سعد الضبی سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا علی المرتضیؓ میانہ قد سے قدرے بڑے، بھاری کندھوں والے اور لمبی داڑھی والے تھے۔جب آپؓ کو دور سے دیکھا جاتا تو کہا جا سکتا تھا کہ گندمی رنگت والے ہیں۔مگر جب قریب سے دیکھا جاتاتو گندمی رنگت کی بجائے سانولی رنگت دکھائی دیتے تھے۔
آپ ؓ کا شمار ایسے نفوس قد سیہ میں ہوتا ہے جنہوں نے رسولﷺ کواعلان نبوت سے لیکر وصال تک،خلوت وجلوت میں،سفروحضرمیں،کبھی میدان جنگ میں، کبھی گھر کے اندر اور کبھی باہر دیکھا۔نبی اکرمﷺکے ہونٹوں کی ایک ایک جنبش کو،جسم اطہر کے ایک ایک اندازکواپنے اذہان میں نقش ہی نہیں کیا بلکہ اپنی طبیعت اور مزاج کی روح میں اتار کر اگلی آنے والی نسلوں تک پہنچایا۔جب حضور نبی ﷺ نے ا علان نبوت کیااس وقت حضرت علیؓ کی عمر دس سال تھی اور آپﷺ کے گھر ہی میں رہائش پذیر تھے۔اس لئے وہ ان نیک اور مقدس شخصیات میں شامل ہوگئے جنہوں نے اسلام کو اس کی ابتدائی ساعتوں میں ہی قبول کرلیا تھا۔
حضرت امیر المومنین علی المرتضیؓ قبول اسلام کے واقع کو خود اس طرح بیان فرماتے تھے کہ جب رسولﷺ کو اللہ رب العزت کی طرف سے اپنے قریبی لوگوں تک اسلام کی دعوت پہنچانے کا حکم دیاتو نبی مکرمﷺ نے خاندان ہاشم کے لوگوں کو کھانے کی دعوت پر جمع کیا۔چنانچہ کھانا لا کر رکھا گیا ۔اور تمام لوگوں نے شکم سیر ہو کر کھایا۔مگر یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کھانے کو کسی نے چھوا تک نہیںپھر آپﷺ نے شربت کا پیالہ منگوایا جس کو تمام لوگوں نے خوب سیر ہوکر پیا۔مگر ایسے معلوم ہوتا تھا کہ اسے بھی کسی نہیں چھوا تک نہیں ۔پھر آپ ﷺ نے فرمایا ؛اے اولاد عبدالمطلب ! مجھے اللہ تعالی نے تمھاری طرف خصوصی طور پر اور باقی لوگوں کی طرف عمومی طور پر بھیجا ہے۔اور تم نے اس کھانے میں جو نشان دیکھا ہے وہ تو دیکھ ہی لیا ہے۔تم میں سے کون شخص اس امر پر میری بیعت کرے گا کہ وہ میرا بھائی اور میرا ساتھی ہو گا ؟
حضرت علی ؓ کہتے ہیںکہ آپﷺکی یہ بات سن کر کوئی شخص بھی آپﷺ کی حمایت کے لئے نہ اٹھا۔فرماتے ہیں کہ میں وہاں موجود تمام لوگوں سے کم عمر تھالیکن اسکے باوجود میں اپنی جگہ سے اٹھامگرآنحضورﷺ نے کہا کہ تم بیٹھ جائو،دوسری مرتبہ ایسا ہی ہوا ، میں جب بھی اٹھتا تو آنحضورﷺ فرماتے تم بیٹھو ۔پھر جب میں تیسری مرتبہ اٹھا تو رسولﷺ نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر مارا(اوربیعت لی)۔
قبول اسلام کے بعد حضرت علیؓ نبی کریم ﷺ کے دست وبازو بن گئے۔مصائب آلام کی ہر گھڑی میں آپﷺ کے ساتھ رہے۔فرماتے ہیں کہ ــ’’جب رسولﷺ ہجرت کے لئے گھر سے روانہ ہوئے تو آنحضورﷺ نے مجھے حکم دیا کہ جب میںہجرت کرکے چلا جائوں تو میرے گھر میں ٹھہرے رہنا اورمیرے پاس لوگوں کی جو امانتیں رکھیں گئی ہیں وہ واپس لوٹا دینا۔اسی لئے رسو ل
اکرمﷺ’’امینــ‘‘ (امانت دار) کہلاتے تھے۔میں نے نبی اکرمﷺ کے گھر تین دن قیام کیا اور سب کے سامنے رہا۔ ایک دن کے لئے بھی نہیں چھپا۔‘‘(طبقات)
اسی طرح غزوہ بدر میں حضرت علی ؓ کی شجاعت پہلی مرتبہ لوگوں کے سامنے آئی جب آپؓ نے نامور قریشی سردارعقبہ بن ربیع کو جہنم رسید کیا۔جو اس دن اپنے سرخ اونٹ پر سوار تھا۔اور اپنے قومی وخاندانی تعصب میں سر سے پائوں تک رنگا ہوا تھا۔حضرت علیؓ نے اسکی تلوار نے اسکا کام تمام کیا۔اس دن رسو ل اکرمﷺ کا جھنڈا حضرت علیؓ کے ہاتھ میں تھا ۔ حضرت علیؓ نے اس جھنڈے اور تلوار کا حق ادا کردیا۔سیدنا علی ؓ کے بارے میں تمام سوانح نگا ر لکھتے ہیں کے وہ غزوہ بدر وخیبر سمیت تمام غزوات میں نبی اکرم ﷺ کے ’’علم بردار‘‘ رہے۔
غزوہ بدر کے بعد حضرت علیؓ کو ایسا اعزاز حاصل ہواجس نے انکی عظمت کو چار چاند لگا دیئے۔یہ اعزاز حضرت علیؓ کی حضرت فاطمہ ؓ سے شادی خانہ آبادی کا تھا ۔اور اللہ تعالی نے روز ازل سے انکے لئے مقدر کررکھا تھا۔حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کی ازدواجی زندگی گو کہ مختصر تھی مگر امت کے لئے لازوال نمونہ تھی۔حضرت فاطمہؓ کے بطن سے آپؓ کے دو صاحبزادے حسن اور حسین اور دو ہی صاحبزادیاںزینب کبریٰ اور ام کلثوم کبریٰ تھیں۔
حضورنبی کریم ﷺ کے وصال کے بعدجب خلافت علی منھاج النبوۃ قائم ہوگئی تو حضرت علیؓ کی شخصیت اور ابھر کر سامنے آئی۔آپؓفقیہہ،مجتہد،مفسرقرآن،ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین فیصلہ کرنے والے بھی تھے۔دوسرے علوم و فنون کی طرح نبی مکرم ﷺ کی روایت نگاری میں بھی حضرت سیدنا علی المرتضیؓقیادت کے اعلی ترین منصب پر فائز ہیں۔آپؓ نے پانچ سو بتیس احادیث روایت کی ہیں۔مسند احمد میں آپؓ سے آٹھ سو آٹھارہ احادیث مروی ہیں اور ان روایات مین بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو نبی اکرمﷺ کی ذاتی زندگی کے بارے میں ہے۔چونکہ آپ ؓنے نبی اکرمﷺ کی زندگی کو شروع سے آخر تک بہت قریب سے دیکھا تھا اسی لئے آپکی معلومات کو زیادہ صحیح اور بہتر تصور کیا جاتا ہے۔ حضورنبی کریم ﷺ نے حضرت علی ؓکے عدالتی فیصلوں اور فقہی فتاوی کی خودتعریف کی ۔ آپکی فقہی مہارت ،اجتہادی بصیر ت ہی کا نتیجہ تھا کہ ایک موقع پر نبی کریمﷺ نے انہیں ’’اقضاکم‘‘ (تم میں سے اچھے یا سب سے بڑے قاضی)قرار دیا۔
اُم المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے جب کبھی مسائل کے بارے میں پوچھا جاتا تو آپؓ لوگوں کو حضرت علیؓ سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتیں۔یہی وجہ تھی کہ خلافت کے شروع دور سے ہی حضرت علیؓ اہم عہدوں پر فائزرہے۔دورفاروقی ؓ میں حضرت علیؓ چھ رکنی شوری کے اہم رکن تھے۔اور خلیفہ وقت سیدنا فاروق اعظمؓ کی اپنے بہترین مشوروں کے ساتھ مدد فرمایا کرتے تھے۔ پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد آپکوؓ خلیفہ چنا گیا۔اور تقریباً چارسال نو ماہ مسند خلافت پر مسند نشیںرہے۔آپکے دور خلافت میں ایک دفعہ دو عورتیں کچھ مالی مدد لینے کے لئے حاضر ہوئیں۔ان میں سے ایک عرب تھی اوردوسری خادمہ اسرائیلی تھی ۔آپؓ نے ان دونوں کی برابر مدد فرمائی۔عرب عورت نے اسے اپنے وقار کے خلاف سمجھا کہ اسکی حوصلہ افزائی زیادہ کیوں نہ کی گئی۔اس عورت نے
جب اسکا اظہار کیا تو حضرت علی المرتضیؓ نے فرمایا ’’میں نے قرآن کریم میں غور کیا ہے اس میںمجھے اولاد اسماعیلؑ کی اولاد اسحاقؑ پر کوئی فضیلت نہیں ملی‘‘۔اب اگر سوچا جائے تو حضرت علیؓ خود عرب ہونے کے ساتھ ساتھ بنو اسماعیلؑ ہی میں سے تھے۔اورجس عورت نے یہ سوال پیدا کیا اسکا تعلق بھی بنو اسماعیل ؑسے تھا۔اس نے ادھر توجہ دلا کر آپکو ایک جاہلی جذبے کی طرف کھینچنا چاہا۔مگر آپؓ کی راست بازی اور عدل و انصاف کے کیا کہنے ۔ ۔ ۔فوراً اسکی اصلاح کی کہ قرآن ہمیں جاہلی رعائت نہیں دیتا۔شعوب وقبائل صرف تعارف کے لئے ہیں بڑائی کے لئے نہیں۔اللہ رب العزت کے ہاں زیادہ عزت اسکی ہے جو ایمان و تقوی میں اونچا ہے۔یہی وہ خصوصیات تھیں جن کی وجہ سے امیرالمومنین حضرت علیؓ کی تاریخ عدل و انصاف اور حسن قضاکی ایک کھلی کتا ب بن کر مثل آفتاب چمک اور دمک رہی ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے آپ ؓ کو شہادت کی بشارت پہلے ہی دے دی تھی۔چنانچہ آپؓ اپنے آپکو خود ہی مخاطب کر کے فرمایا کرتے تھے کہ ’’ اے علیؓ!اگلوں میں سب سے زیادہ شقی وہ تھا جس نے صالحؑ کی اونٹنی پیر کاٹے تھے اور پچھلوں میں سب سے زیادہ شقی وہ ہے جو تمہاری داڑھی کو خون سے رنگین کرے گا‘‘۔چنانچہ تین خارجی مکہ مکرمہ میں جمع ہوئے اور ان تینو ں میں باہم تین شخصیات کو قتل کرنے کا معاہدہ ہوا۔جن میں سے پہلی شخصیت حضرت علیؓ تھی دوسری شخصیت حضرت معاویہؓ کی اور تیسری عمرو بن عاص ؓ کی تھی۔اور یہ بھی طے ہوا کہ تینوں شخصیات کو ایک ہی وقت میں حملہ کر کے قتل کیا جائے گا۔عبدالرحمن ابن ملجم خارجی نے حضرت علیؓ کے قتل کی حامی بھر کر کوفہ کی طرف چل پڑا۔اب کوفہ میں فجر کی نماز کا وقت تھا۔اور امیرالمومنین سیدنا علی المرتضیؓکی عادت کہ نماز کے لئے بہت سویرے مسجد میں تشریف لے جاتے۔اسی دن ابن ملجم راستے میں چھپ کر بیٹھ گیا۔بس جیسے ہی آپ ؓ وہاں پہنچے اس نے آپؓ کی پیشانی مبارک پر تلوار کا وار کیا۔جو دماغ تک جا پہنچااور آپؓ خون سے نہا گئے اورداڑھی مبارک خون سے تر ہو گئی۔سیدناحسینؓ فرماتے ہیں کہ میںپیچھے چلا آرہا تھایکایک مجھے تلوار کی چمک محسوس ہوئی۔اور میں نے امیر المومنین کو زمین پر گرتے اور یہ کہتے سنا ’’قسم ہے رب کعبہ کی میری آرزو پوری ہوئی‘‘۔اس حملے کے بعد لوگ چاروں طرف سے دوڑ پڑے اورابن ملجم کو پکڑ لیا گیا۔
ابن ملجم کو حضرت علیؓ کے سامنے پیش کیا گیا۔آپ ؓ نے اسے اپنے سامنے قتل نہیں ہونے دیا۔بلکہ فرمایا ؛یہ تمھارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا ، جو کچھ خود کھانا وہی اسے کھلانا پھر فرمایا؛ اگر میں اچھا ہوگیا تو پھر مجھے یہ اختیا رہے کہ اگر میں چاہوں تو سزا دوں گا ورنہ معاف کر دوں گا۔اور اگر میںاچھا نہ رہا تو پھر یہ کرنا کہ اس نے ایک ضرب ماری تھی تم بھی اسکو ایک ضرب مارنا۔
پھر اپنے صاحبزادوں حضرت امام حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو بلا کر وصیت لکھوائی۔او ر دو دن انتہائی کرب کی کیفیت میں گزارنے کے بعد۲۱ رمضان المبارک کی صبح اپنی جان خالق حقیقی کے سپرد کر دی۔ہمیشہ سے تاریخ دان ’’باب علیؓ‘‘ کو ان’’ الفاظ علیؓ ‘‘ کے ساتھ ہی ختم کرتا آیا ہے جو انہوں نے نبی کریم ﷺ کو غسل دیتے وقت ارشاد فرماتے ہوئے امت محمدیہ کے لئے ایک پیغام کی صورت میں چھوڑے تھے کہ’’اگر آپﷺ نے صبر کا حکم نہ دیا ہوتااور آہ زاری سے نہ روکا ہوتا تو ہم (آج آنسوئوں میں)آنکھوں کا آخری پانی تک بہا دیتے‘‘۔ (نہج البلاغہ۲ص۶۵۲)
