93

اور۔۔۔۔۔حسنہ لاپتہ ہو گئی!!/تحریر/روحان دانش

دانش کدہ/ روحان دانش

“جس میں ہم سوار تھے وہ پوری کی پوری ٹرین “کاٹ” دی گئی۔ صرف میں اور میرا چھوٹا بھائی لاشوں کے نیچے دبے ہونے کی وجہ سے بچ گئے۔”
چھیانوے سالہ سید اختر علی صاحب نے 2017 میں وائس آف امریکہ کے ایک نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 1947 میں ہجرت کے وقت شرپسندوں کے حملے میں ان کی پوری ٹرین کاٹ دی گئی اور دکھ پر دکھ یہ تھا کہ حملے کے دوران ان کی 5 سالہ چھوٹی بہن حسنہ لاپتہ ہو گئی۔
یوں اپنے ماں، باپ، بہن، بھائیوں اور رشتہ داروں کے کٹے پھٹے مردہ جسموں کو دیکھنے بعد خود کو سنبھالنا بہت ہی مشکل تھا۔ لاہور پہنچے تو کئی روز ہسپتال میں گزارنے پڑے۔ بہن کا بہت پوچھا مگر کچھ پتہ نہ چل سکا۔ ڈسچارج ہوئے تو
لاہور کے مہاجر کیمپ میں چھوٹی بہن کو ڈھونڈتے رہے پر کوئی خبر نہ مل پائی۔
ہر طرف ایک آہ و بکا تھی۔ کہیں ماں باپ کی خبر نہیں تو کہیں اولاد جان جانِ آفریں کے سپرد کر چکی۔ بیوی شوہر سے اور شوہر بیوی سے جدا۔ بہنیں اپنے بھائیوں سے محروم تو کئی بھائی اپنی بہنوں کو راہ ہجرت میں قربان کر چکے۔
یہ سب دیکھ کر سینہ پھٹے پھٹے جاتا اور کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ تلاش بسیار کے بعد بہن کو بھی مردہ تصور کر لیا۔ دل ٹوٹ گیا۔ ایک بار پھر ہجرت کا سہارا لیا اور کراچی آن ٹہرے۔
ماں، باپ،بہن، بھائیوں اور باقی رشتہ داروں کی شہادت تو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے مگر چھوٹی بہن حسنہ کے حوالے سے بے چینی کم نہیں ہو رہی تھی۔ بالآخر اللہ پاک نے ہم پر اپنی رحمت کو وسعت دی۔ ہماری دعائیں رنگ لائیں اور تیسرے ماہ ہی لاہور سے فون آ گیاکہ حسنہ مل گئی تھی۔ سجدہ شکر ادا کیا۔ لاہور گئے، بہن کو لیا اور واپس کراچی آ بسے۔
چشم تصور سے دیکھوں تو میرا گمان ہے کہ یوں اپنا سب کچھ، اپنا گھر اور اپنے پیاروں کو کھونے کے بعد سید اختر علی کو اپنی زندگی لا یعنی سی لگتی ہوگی مگر ایک نئے وطن پاکستان کی محبت اور آج کے حالات کے برعکس مستقبل کی ایک عظیم مملکت اور ایک عظیم قوم کا فرد ہونے کا خوبصورت احساس اور ساتھ میں اپنے چھوٹے بہن بھائی کی کفالت کا خیال ہی ہوگا جو ہمہ وقت جناب سید اختر علی کو جینے کی امنگ اور نیا ولولہ دیتا ہوگا۔
میرے وطن کے باسیو اور نوجوانو! اپنی بات کو سمیٹوں تو آج 2022ء تک آتے آتے ہم پاکستانیوں نے خوبصورت خوابوں اور امنگوں سے مایوسی تک کا ایک طویل سفر طے کیا ہے۔
اہل اقتدار کے ہاتھوں اہل پاکستان کے خوابوں کا خون ہوا ہے اور بار بار ہوا ہے۔ ان کی امنگوں پر ڈاکہ ڈالا جاتا رہا ہے اور تنزل کا یہ سفر ہنوز جاری ہے۔ روز افزوں مہنگائی کے سبب عوام کی حالت انتہائی زار ہے۔ روزگار میسر نہیں۔ طاقت ور کی جانب سے اچھے اور جائز کام میں بھی روڑے اٹکائے جانا ایک عمومی کلچر ہے۔ کرپشن ہے، مہنگائی ہے، ذخیرہ اندوزی ہے، ظلم ہے۔
اس سبب سے مایوسی اور اپنے وطن تک کے لیے غیر مناسب الفاظ و خیالات کا دل اور منہ میں آ جانا فطری امر ہے۔ مگر اس سبب سے اس وطن سے جس کی بنیادوں میں ہزاروں بلکہ لاکھوں شہیدوں کا لہو ہے۔۔۔اس سے نفرت اور بیزاری کو سند جواز دی جا سکتی ہے نہ مناسب طرز عمل کہا جا سکتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنے ہی ملک میں یوں مجبور و مظلوم ٹھہر کر بھی پاکستان اور اس کے حکمرانوں کو ذمہ دار نہ ٹہرائیں، گلہ بھی نہ کریں، کیوں؟
آپ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ جو میرے اور آپ کے بس میں نہیں، اللہ کی جناب میں اس کی بابت ہم سے باز پرس نہ ہوگی۔ حکمران اپنے طرز عمل کے لیے ضرور رب کو جوابدہ ہوں گے۔ ہمیں ان پر اختیار نہیں مگر ہم اپنی اصلاح تو کر سکتے ہیں۔
تو آئیے! آج ہم عہد کریں۔ ایک بار پھر عہد کریں۔ خود سے عہد کریں۔ اپنے رب سے عہد کریں کہ ہم اپنے آباو اجداد کے خون سے روا اس بغاوت کا حصہ
نہیں بنیں گے۔ کل قیامت کے روز ہم اپنے رب، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور شہیدان وطن کے سامنے خود کو شرمندہ نہیں ہونے دیں گے اور یہ کہ ہم ان کی قربانیوں کو ضائع نہیں ہونے دیں گے اور اپنے حصے کا کردار بھرپور ادا کریں گے، بقول احمد فراز:
شکوہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
قارئین کرام ! آئیے عہد کریں کہ یہ پاکستان جو ہم سب کا وطن ہے، ہمارے بچوں کا وطن ہے، اس سے محبت کریں گے اور اس محبت کو نبھائیں گے۔
جھوٹ نہیں بولیں گے، کسی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے، نفرت نہیں کریں گے، اختیار بھر دوسروں کو آسانیاں پہنچانے کی سعی جاری رکھیں گے اور اپنے دائرہ کار میں پاکستان کو پے بیک کریں گے خواہ وہ راستے سے ایک تکلیف دہ چیز ہٹا کر ہو یا پھر کسی پریشان اور مجبور چہرے پر ایک مسکراہٹ لانے کا سبب بن کر ہی ہو۔ بقول شاعر:
اخوت کی زباں ہو جا، محبت کا بیاں ہو جا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں