تحریر: حکیم شاکر فاروقی
میں گریجویشن کر رہا تھا جب سر سے باپ کا چھتنار سایہ اٹھ گیا۔ شروع شروع میں چند ایک رشتہ داروں نے گھر چلانے کے لیے صدقہ زکوٰۃ کے نام پر چند ٹکے دیے لیکن یہ سلسلہ کب تک چلتا؟ ہر کوئی کہتا ”انہیں زکوٰۃ دینے کی کیا ضرورت ہے؟ ماشاء اللہ اولاد جوان اور صحیح سلامت ہے۔” غرض حالات کی گردش نے وقتی طور پر تعلیم کو بریک لگا دی۔ میں نے کالج کو خیرباد کہا اور ایک ہوٹل میں بیرے کے طور پر کام کرنے لگا۔ انہی دنوں میری ملاقات ڈاکٹر خورشید صاحب سے ہوئی۔ انہوں نے میرے چہرے بشرے اور انداز گفتگو سے جان لیا کہ میں پڑھا لکھا ہوں۔ پاس بلایا اور کہا ”تجھ سے تعلیم تمہاری ذاتی سوچ نے چھڑائی ہے یا حالات زمانہ نے؟” میری آنکھیں ڈبڈبا گئیں جس سے انہیں اندازہ ہو گیا کہ گھریلو حالات سے تنگ آکر میں نے تعلیم ادھوری چھوڑ دی ہے۔
”بیٹا! تم اس ہوٹل میں کتنا وقت دیتے ہو؟” انہوں نے ملائمت سے پوچھا تو میں نے کہا ”تقريبا بارہ بجے دوپہر اور مغرب کے بعد۔ ان دو اوقات میں یہاں زیادہ ہجوم ہوتا ہے۔ جس کی بنا پر میں ان دو اوقات میں یہاں آ جاتا ہوں اور ٹپ و ملازمت سے نانِ شبینہ کا خرچ نکل آتا ہے۔”
پھر باقی وقت کیا کرتے ہو؟” انہوں نے دوبارہ پوچھا
”جی! کچھ نہیں، کبھی کبھی گھر چلا جاتا ہوں۔” میں نے گلوگیر آواز میں جواب دیا۔
” دیکھو بیٹا! یہاں کسی کی خوشی بھی پوری نہیں ہے۔ کسی کو دولت کی کثرت نے مسائل میں الجھا رکھا ہے اور کسی کو دولت کی قلت نے۔ میں بھی تمہاری طرح دوران تعلیم غربت کے چکر میں پھنس گیا تھا. لیکن میں نے تعلیم نہیں چھوڑی تھی۔ میں کالج سے واپس آ کر ایک کار مکینک کے ساتھ رہتا۔ شام کے بعد ایک شاپنگ سینٹر پر جاتا جہاں گاہکوں کو ڈیل کرنے کے ساتھ ساتھ صفائی ستھرائی اور مالک کے بعض ذاتی کام بھی کرنے پڑتے۔ رات بارہ بجے تک وہاں کام کرتا۔ اس دوران میرے ذرائع آمدن تبدیل ہوتے رہے۔ پٹرول پمپ، ریسٹورنٹ، پلے داری، فوٹو سٹیٹ مشین، موچی، مرغی فروش، میڈیکل سٹور، ڈسپنسری … غرض میں نے طرح طرح کا کام کیا۔ بالآخر گرتے پڑتے میں نے ایم بی بی ایس کر لیا۔ آج الحمد للہ میرا شمار شہر کے متمول ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں نوجوان اپنی تعلیم کا سارا بوجھ بوڑھے والدین کے ناتواں کندھوں پر ڈال دیتے ہیں اور خود گل چھرے اڑاتے ہیں۔ یورپ میں ایسا نہیں ہے۔ وہاں میٹرک کے بعد تعلیم کا اکثر خرچ اولاد خود اٹھاتی ہے۔ جس سے ان میں نہ صرف کفایت شعاری اور قناعت کی صفات پیدا ہوتی ہیں بلکہ زندگی گزارنے کا تجربہ بھی ہو جاتا ہے۔ چنانچہ جب وہ اپنی عملی دنیا میں قدم رکھتے ہیں تو دھوکہ کھانے اور ناتجربہ کاری کے باعث نئے نئے تجربات سے بچ جاتے ہیں۔
اب تو بہت آسانی ہو گئی ہے۔ آپ اپنے اینڈرائیڈ موبائل کے ذریعے آن لائن ٹیوشن پڑھا سکتے ہو، موبائل گرافکس سیکھ کر ہلکی پھلکی آڈیو ویڈیو ایڈیٹنگ، وائس اوور، کمپوزنگ، پروف ریڈنگ اور ڈیزائننگ کر سکتے ہو۔ اگر تمہارا تخیل، مشاہدہ اور مطالعہ وسیع ہے تو مضمون نگاری، شاعری یا کانٹیکٹ رائٹنگ کر سکتے ہو۔ اگر لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر میسر ہے پھر تو فری لانسنگ کے میدان میں جھنڈے گاڑ سکتے ہو۔ السٹریٹر، فوٹوشاپ، کورل ڈرا، ان پیج سیکھ کر ہزاروں نہیں، بلاشبہ لاکھوں روپے کما سکتے ہو۔ لوگ آج کل ڈیجیٹل اور ایفیلیٹ مارکیٹنگ کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ بناتے ہیں اور پھر کسی تاجر سے رابطہ کر کے اس کی پراڈکٹ اپنا کمیشن رکھ کر آگے بیچتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ اپنے علاقے کی مشہور سوغات مثلاً سوہن حلوہ، دستکاری کی چیزیں، کھدر کا کپڑا، اجرک، کھجور، شہد اور ریوڑی وغیرہ بیچ کر ٹھیک ٹھاک منافع کما رہے ہیں۔ میرے ایک دوست نے آن لائن کباڑ خانہ کھول رکھا ہے جس میں سیکنڈ ہینڈ موبائل فون سے لے کر بڑی بڑی گاڑیوں تک اور کتابوں سے لے کر جیولری تک سب کچھ بیچتا ہے۔ اس کی روزانہ کی آمدن لاکھوں روپے ہے۔ کچھ لوگ اپنا ٹیلنٹ، فن یا آرٹ بھی آن لائن بیچتے ہیں۔ ہماری مسجد کے امام صاحب نے یوٹیوب چینل بنا رکھا ہے جس میں اپنی قرأت اور نعتوں کی ویڈیوز اپلوڈ کرتے رہتے ہیں۔ ان کے لاکھوں سبسکرائبرز ہیں۔ اسی طرح ہمارا پڑوسی صاف ستھرے مزاح پر مشتمل ویڈیو بنا کر اپلوڈ کرتا رہتا ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ پچھلے دنوں فری لانسنگ کی مشہور ویب سائٹ فائیور پر لاہور کے ایک شخص کو دیکھا جو بیرون ملک بیٹھے لوگوں کو دعوت دے رہا تھا کہ اگر سید علی ہجویری المعروف داتا دربار پر دعا مانگنا اور لنگر تقسیمِ کرنا چاہو تو میری خدمات حاضر ہیں۔ اس کے اکاؤنٹ پر ہزاروں لوگ آ رہے تھے اور وہ صرف اسی کام کا ان سے لاکھوں وصول کر رہا تھا۔
میرے عزیز! درج بالا کام آف لائن اپنے علاقے میں بھی کیے جا سکتے ہیں۔ میرے دوست کے ایک بیٹے نے اپنے پانچ دوستوں کو جمع کر کے ایک ٹیم بنائی ہے۔ ان کے پاس برگر بنانے کی ایک بہترین ریسپی تھی۔ ایک لڑکے نے اپنے باپ کے واسطے سے چھوٹی سی دکان کا بندوبست کیا، دوسرا کرسیاں اور میز لے آیا، تیسرے نے برتنوں کا اہتمام کیا، چوتھے نے برگر میں استعمال ہونے والے مسالے اور دیگر چیزوں کا اہتمام کیا جب کہ پانچویں لڑکے نے بطور کاری گر اپنی خدمات پیش کیں۔ باقی پیسہ انہوں نے اپنی روز مرہ کا جیب خرچ بچا کر اکٹھا کیا۔ یونیورسٹی سے واپسی پر وہ اپنی شاپ کھولتے اور عصر سے عشا تک کام کرتے ہیں۔ اب ماشاء اللہ ان کے پاس ٹھیک ٹھاک گاہک آنے لگے ہیں۔ ان لڑکوں کا کہنا ہے کہ ہمارا کاروبار نہ بھی چلے تب بھی ہمیں آئندہ زندگی کا تجربہ ابھی سے ہو رہا ہے جو ہمیں بڑے کاروبار میں ان شاء اللہ العزیز کام آئے گا۔ اسی طرح میرے بیٹے کا ایک کلاس فیلو مستقبل میں بوتیک کھولنا چاہتا ہے، وہ ابھی سے درزی کی دکان پر بیٹھتا ہے تاکہ اس کام کے نشیب و فراز سے واقفیت حاصل کر لے۔ میرا ایک مریض لڑکا سوفٹویئر انجینئرنگ کر رہا ہے وہ گاہے بگاہے مارکیٹ میں جاتا اور سوفٹ ویئر کا کام کرنے والے دوستوں کے پاس بیٹھتا ہے۔ اس لیے میری نصیحت ہے کہ تم بھی پڑھائی چھوڑے بغیر کوئی نہ کوئی ہنر سیکھنا شروع کر دو۔ وقت کی تقسیم اس طرح کرو کہ ایک حصہ تعلیم کو، دوسرا گھر کے کاموں، تیسرا پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے پیسہ کمانے کو، چوتھا کوئی ہنر سیکھنے، پانچواں اپنے آرام اور چھٹا حصہ اپنے رب کی عبادت کے لیے وقف کرو۔ کیا تمہیں قائد اعظم کا فرمان یاد نہیں؟ کام، کام اور کام… لیکن یہ کام بھی اتحاد، تنظیم اور کامل یقین سے کرو گے تو ایک دن تمہیں اپنے موجودہ سارے مسائل سے نجات مل جائے گی۔ ڈاکٹر صاحب کی باتیں سن کر میرے تو جیسے سر سے بھاری بوجھ اتر گیا۔اب میں بھی ایک نئے عزم سے اٹھ کھڑا ہوں۔
* * *