94

ایٹم بم/سلسلہ/سائنس نگر/تحریر/زینب اعظم

یہ سائنس نگر ہے جس میں ملکہ سائنس بیٹھی ہوئی ہیں اور تمام ایجادات کھڑی ہوئی ہیں۔
دراصل آج ملکہ نے تمام ایجادات کو طلب کیا تھا۔
ملکہ باری باری سب کو دیکھ رہی تھیں تو ان کو ایٹم بم کی جگہ خالی نظر آئی۔
آج ایٹم بم نظر نہیں آرہا ہے اوہ کہیں وہ انسانوں کی دنیا میں تباہی پھیلانے کے لیے تو نہیں چلاگیا؟” ملکہ نے فکرمندانہ انداز میں کہا۔
تمام ایجادات نے لاعلمی کا اظہار کیا تو ملکہ نے اپنے رپورٹر (ریڈیو) کو طلب کرلیا اور اس سے ایٹم بم کے بارے میں سوال کیا تو ریڈیو نے کہا: “میری رپورٹ کے مطابق آج ایٹم بم انسانوں کی دنیا میں گیا ہے.”
ملکہ نے اپنے خاص جیلر (انٹرنیٹ) کو حکم دیا:” جاؤ اور اسکو پکڑ کر لاؤ.”
انٹرنیٹ جانے کے لیے مڑگیا۔
آج ایٹم بم صبح ہی صبح انسانوں کی دنیا میں سیر کرنے کے لیے چلاگیا تو ایک سائنس دان کی نظر اس پر پڑگئ اور وہ اس کو پکڑ کر اپنی تجربہ گاہ میں لے گیا اور اس سے توانائی پیدا کرنے لگا۔
اس نے چیخنا شروع کر دیا لیکن کسی نے اس کی ایک نہ سنی۔
پندرہ منٹ کے بعد انٹرنیٹ تجربہ گاہ میں پہنچ گیا اور سائنس دان کو اپنی باتوں کے نیٹ (جال) میں پھنسا کر ایٹم بم کو پکڑ لیا اور پھر وہاں سے رفوچکر ہوگیا۔
زنجیروں میں جکڑا ہوا ایٹم بم جب ملکہ کے سامنے لایا گیا تو انہوں نے کہا: ” تم یقیناً انسانوں کی دنیا میں تباہی پھیلا کر آئے ہو کیونکہ تمہارا کام ہی یہی ہے.”
“ملکہ عالیہ آج میں نے کوئی تباہی نہیں پھیلائی بلکہ آج میں انسانوں کو فائدہ پہنچا کر آیا ہوں.
آج ایک سائنس دان نے مجھ سے توانائی پیدا کی۔”
ایٹم بم نے ادب سے کہا۔
“اچھااا تو تم توانائی کے حصول کا بھی ذریعہ ہو؟” ملکہ نے حیرت سے پوچھا۔
“ملکہ عالیہ! گستاخی معاف! اگر آپ کے پاس وقت ہے تو آج میں آپ کو اپنی کہانی سناتا ہوں.”
ایٹم بم نے قدرے توقف کے بعد کہا۔
“اجازت ہے.” ملکہ نے بےنیازی سے کہا۔
ایٹم بم گویا ہوا: “دنیا کی ہر شے ننھے ایٹموں سے مل کر بنتی ہے.
میں بھی انہی سے مل کر ایجاد ہوا ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال پہلے قرآن کریم میں میرا ذکر فرمایا تھا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: “کافر سمجھتے ہیں کہ قیامت نہیں آۓ گی، وہ ضرور آئے گی کیونکہ اللہ سے ایک ذرہ ذرہ بھی پوشیدہ نہیں، چاہے زمین پر ہو یا آسمان پر، بلکہ اس سے بھی چھوٹی شے (یعنی ایٹم) اس کتاب میں موجود ہے.” (سورۃ السبا آیت ۳).
یہ دنیا بھی ایک ایٹم ہے جو کہ پھیلتا ہی جارہا ہے اور کسی دن پھٹ کر تباہ ہوجاۓ گا۔
مجھے سب سے پہلے امریکا، برطانیہ اور کینیڈا کے ماہرین نے مل کر بنایا اور دوسری جنگ عظیم میں استعمال کیا اور ان ممالک کے علاوہ روس، فرانس، بھارت، پاکستان اور شمالی کوریا کے پاس بھی میں ہوں۔
میرے تین حصے ہوتے ہیں، پروٹون، نیوٹرون اور الیکٹرون۔
مجھے یورینیم یا پلاٹینم کے ایٹم کے ایک چھوٹے بارودی دھاگے سے توڑا جاتا ہے۔
میرے ٹوٹنے کا یہ عمل”ایٹمی انشقاق” کہلاتا ہے۔
جب ایک ایٹم پھٹتا ہے تو اس سے خارج ہونے والے نیوٹرون دوسرا ایٹم توڑتے ہیں۔
اس طرح میرے ٹوٹنے کا سلسلہ چلتا رہتا ہے اور پھر جب پورا بم پھٹتا ہے تو بے پناہ توانائی حاصل ہوتی ہے۔
میرے اندر موجود یورینیم اتنی توانائی خارج کرتا ہے کہ آدھا کلو یورینیم دس گیلن پیٹرول کے برابر توانائی پیدا کرتا ہے۔
۱۹۵۰ع میں ایک امریکی سائنس دان لیوسیزر لارڈ نے کوبالٹ دھات سے ایٹم بم بنانے کی تجویز پیش کی۔
اس دھات میں سے انتہائی زہریلا مادہ خارج ہوتا ہے جو پوری دنیا کے انسانوں کی موت کے لیے کافی ہے۔
آج انسان اس مہلک بم کو ایجاد کرچکا ہے اور اس بم کو”قیامت لانے والا بم” کہتے ہیں۔
اگر میری خارج ہونے والی توانائی کا صحیح استعمال کیا جائے تو انسان ترقی کی منازل طے کرسکتا ہے، کارخانے چل سکتے ہیں اور بڑے سے بڑے منصوبے کم خرچ میں پایہ تکمیل کو پہنچ سکتے ہیں اور ہر جگہ تک باآسانی بجلی پہنچ سکتی ہے مگر افسوس! صد افسوس! ملکہ عالیہ انسان نے میرا غلط استعمال کرکے مجھے خوف اور دہشت کی علامت بنادیا ہے.” ایٹم بم نے افسردہ ہو کر بات ختم کی تو تمام ایجادات اس کو سراہنے لگیں اور ملکہ عالیہ نے انٹرنیٹ کو اشارہ کیا تاکہ وہ ایٹم بم کو اپنے نیٹ (جال) سے آزاد کردے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں