112

بازارِ حسن کے سہولت کار/تحریر/ابوبکر قدسی

دنیا میں مظلوم ترین عورت آپ کو بازار حسن میں ملے گی کہ ہر نگاہ خریدار بن کر اٹھتی ہے ،
جو روز ” دلہن” بنتی اور روز اس کی چوڑیاں ٹوٹ جاتی ہیں ۔
روز اس کی “بارات آتی” اور ڈولی خالی لوٹ جاتی ہے ۔
روز جس کا جسم نوچا جاتا اور روح کچلی جاتی ہے ،
کہ ہر رات وہ کھلونا بنتی ہے ،
لیکن آپ کو اس عورت کے حق میں ان روشن خیالوں کے ہاں کچھ نہیں ملے گا اور اگر کبھی بات بھی کریں گے تو محفوظ سیکس کی کریں گے کہ جو گاہک جائے اسے بیمار نہ کر آئے ، اور بیماری لے نہ آئے ، اس مظلوم عورت کی روح بھلے پامال کر آئے ، تب یہ منافق اسے سیکس ورکر قرار دیں گے ۔۔۔۔
پچھلے چند روز سے جو تالا بندی ہو رہی ہے اور یہ جو عورت کی مظلومیت بھری کہانیاں سنا سنا کر رو رہے ہیں تب کہاں گم ہو جاتے ہیں کہ جب جب اس بازار کی راتیں
کسی کے آنسوؤں اور سسکیوں سے زخمی ہوتی ہیں ، کون نہیں جانتا کہ یہ سجی سنںوری طوائفیں جو کبھی معزز عورتیں تھیں ہرگز اس مکروہ دھندے پر راضی نہیں ہیں ۔۔۔اور کون نہیں جانتا کہ بہت سی معصوم بچیاں میلوں ٹھیلوں اور عوامی مقامات سے اغوا کر کے فروخت کی جاتی ہیں اور وہ جو شرم گاہ کو تالا بندی کر رہے ہیں اور گھریلو خواتین کی ناک کی نتھلی کو غلامی کی ایک شکل قرار دے کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں ، کیا وہ اس بازار میں مجبور خواتین اور معصوم بچیوں کی نتھ اترائی کے رواج کو نہیں جانتے ؟
سب جانتے ہیں اور سب سمجھتے ہیں ۔۔۔ لیکن جو سیٹھ صاحب ، جاگیر دار صاحب ، جو ملیئنر صاحب اور جو بیوروکریسی کے افسر اعلیٰ صاحب رات کسی کی نتھ اتار رہے ہوتے ہیں اگلے روز ان کی کسی انسانی حقوق اور عین ممکن ہے زنانی حقوق کے کنونشن میں مہمان خصوصی بنے بیٹھے ہوں ۔۔۔۔۔
سو یہ نتھ اترائی ان کے ہاں کسی غزل کا مصرع نہیں بنتی ۔۔۔ اور اگر کوئی کہے تو بھی انہوں نے ایک جھوٹا بلکہ متعفن نظریہ اس واسطے بھی وضع رکھا ہے ۔۔۔
یہ اس کو راضی خوشی کا سیکس کہتے ہیں اور کسی کو بھی بنا نکاح جسمانی تعلقات قائم کرنے کا حق دینے کی بات کرتے ہیں ۔۔۔ اور یوں منافق ترین لوگ بازار حسن کی عورتوں کے ساتھ ظلم وبربریت کو “مرضی سے سیکس” قرار دے کر سیکس ورکر کہہ کر نکل جاتے ہیں ۔
ابھی کل کی بات ہے کہ ایک ” صاحب ” کہ عمر بھر صحافت میں گزاری اور دم رخصت آیا تو سربازار بیٹھ گئے ۔۔۔ انہوں نے اس تالا بندی پر اور عورت کی مظلومیت کے حوالے سے ایک ذہنی بیمار لبرل کا مضمون اپنی وال پر لگایا ، بے چارے جیسے کل سے باؤلے ہوئے پھرتے ہیں ۔۔۔۔۔ میں نے عرض کیا کہ جناب اس میں بازار حسن کی مظلوم خواتین جگہ نہیں پا سکیں ۔۔۔ ہونا چاہیے تھا کہ تسلیم کرتے لیکن ایسے نفاق زدہ ہیں کہ فوراً الزامی جواب دیا کہ لاہور میں بازار حسن تو بادشاہی مسجد کے سائے تلے ہے ۔۔۔ میں نے لکھا کہ اسی مسجد کے منبر سے زناکاروں کو سنگسار کرنے کی سزا کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔۔۔۔ وہ آپ کو سنائی نہیں دیتا لیکن مسجد کے میناروں کے سائے فوراً دکھائی دے جاتے ہیں ۔۔۔ وہ مضمون کسی مہدی بخاری صاحب کا تھا جس میں انہوں نے صریحاً غلط بیانی کرتے ہوئے لکھا کہ منبروں سے کہا جاتا ہے کہ عورت پاؤں کی جوتی ہے ۔۔۔۔ کسی کے تقوے کا ہم کیوں امتحان لیں ، لیکن موصوف گیارہ ماہ والے لبرل ہیں سو یہ سب لوگ ایک خاص ذہنیت کے سبب منبر و محراب بارے بے ہودہ گوئی کرتے ہیں ۔۔۔
یہ حقیقت ہے کہ آپ کو یہ نام نہاد روشن خیال ، اور بزعم خویش ترقی پسند اور جھوٹے لبرل کبھی بازار حسن کی عورت کے حق میں بات کرتے دکھائی نہیں دیں گے اور کبھی یہ ان عورتوں کو عام عورت والے حقوق ، گھر اور عزت دینے جی بات نہیں کریں گے ۔۔۔
جانتے ہیں کہ اس کا سبب کیا ہے ؟
حضور! یہ سب بازار حسن کے سہولت کار ہیں ، کسی نہ کسی صورت دلال ہیں ۔۔۔۔۔ دلال

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں